پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانےو الے اہم میچ کے آخری اوور میں محمد نواز کی چوتھی گیند فل ٹاس تھی، کوہلی نے اس پر 6 رنز حاصل کیے تاہم امپائر نے گیند کو ویسٹ ہائٹ سے اوپر ہونے کی وجہ سے نو بال قرار دیا جس پر بھارت کو نہ صرف 7 رنز ملے بلکہ فری ہٹ بھی مل گئی۔

اس پر سوال اٹھاتے ہوئے آسٹریلیا کے سابق کرکٹر بریڈ ہوگ نے کہا کہ محمد نواز کی نو بال قرار دی گئی گیند پر ریویو کیوں نہیں لیا گیا؟

امپائرکی جانب سے ویسٹ ہائٹ سے اوپر ہونے پرگیند کو نو بال قرار دینے کے فیصلے پر قومی ٹیم کےکپتان بابر اعظم بھی مطمئن نظر نہیں آئے اور اس معاملے پر انہوں نے امپائرز سے بحث بھی کی۔

سابق پاکستانی کرکٹر سکندر بخت نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نو بال کے معاملے پر میں نے انٹرنیشنل امپائر سے بھی بات کی ہے، اس میں انہوں نے کہا کہ آئی سی سی کے قوانین کے مطابق کوئی سی بھی گیند ہو ویسٹ ہائٹ سے اوپر ہو گی تو وہ نو بال ہوگی، مگر بریڈ ہوگ کی جانب سے شیئر کی گئی تصویر میں بیٹسمین کا پیر کریز سے باہر ہے، قوانین کہتے ہیں کہ اگر بلے باز اپنی کریز پر کھڑا ہوا ہےاور گیند اس کی ویسٹ ہائٹ پر اوپر آتی ہے تو وہ نو بال ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ کیونکہ بیٹسمین کا پیر کریز سے باہر تھا اس لیے امپائر کو ریویو لینا چاہیے تھا، سکندر بخت نے کہا کہ انٹرنیشنل امپائر نے مجھ سے کہا کہ اس معاملے پر ریویو لینا چاہیے تھا۔

خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا نے آئی سی سی قانون 41.7 کا حوالہ دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ کوئی بھی گیند کریز پر سیدھے کھڑے ہونے پر ویسٹ ہائٹ سے اوپر ہو اسے نو بال قرار دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ لیکن کوہلی کریز سے باہر تھے، اور اگر وہ کریز میں ہوتے تو گیند ویسٹ ہائٹ سے اوپر نہیں ہوتی۔

پاکستانی یوٹیوبر اور ادارکار ارسلان نصیر نے ٹوئٹ کیا کہ بھارت اور کوہلی نے اچھی کرکٹ کھیلی، پاکستان نے بہترین مقابلہ کیا لیکن وہ نو بال نہیں تھی۔

اسی طرح فری ہٹ پر بائی کے تین رنز پر بھی سوالات اٹھے، جب محمد نواز کی گیند پر کوہلی بولڈ ہو گئے تھے، اس پر سوالات اٹھاتے ہوئے بریڈ ہوگ نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اس کو ڈیڈ بال کیوں نہیں قرار دیا گیا۔

کرکٹ کے قوانین کیا کہتے ہیں؟

ورلڈ کپ کے لیے آئی سی سی کی پلیئنگ کنڈیشنز کی شق 21.19.2 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی فری ہٹ پر اسٹرائیکر کو صرف ان مندرجہ ذیل حالات میں آؤٹ کیا جا سکتا ہے، چاہے فری ہٹ کی گیند کو وائیڈ ہی کیوں نہ قرار دیا جائے۔

نو بال پر ان تین صورتحال میں آؤٹ دیا جاسکتا ہے جب گیند کو دو بال مارا جائے، فیلڈنگ میں رکاوٹ پیدا کی جائے، یا پھر رن آؤٹ ہو سکتا ہے۔

کیونکہ ویرات کوہلی ان تینوں طریقوں کے برخلاف بولڈ آؤٹ ہوئے، اس لیے انہیں آؤٹ قرار نہیں دیا گیا، اور وہ آؤٹ نہیں تھے اس لیے یہ ڈیڈ بال بھی نہیں تھی، لہٰذا تکینکی طور پر یہ رنز ٹھیک تھے۔

نو بال کے حوالے سے آئی سی سی کا قانون 41.7.1 کہتا ہے کہ کوئی بھی گیند فل ٹاس ہو اور کریز پر بیٹسمین سیدھے کھڑے ہو اور بال ویسٹ ہائٹ سے اوپر ہو اسے نو بال قرار دیا جائے گا، چاہے اس گیند سے اسٹرائیکر کے زخمی ہونے کا امکان ہو یا نہیں، اگر کوئی باؤلر اس طرح کی گیند کرواتا ہے تو امپائر فور طور پر نو بال کا اشارہ کرے گا۔

یہ اصول کافی مبہم معلوم ہوتا ہے، اس کی تشریح کسی بھی طرف کی جا سکتی ہے، اگر کریز کی لائن پر کھڑے بیٹسمین کو اس میں شامل کیا جاتا ہے، تو کوہلی محفوظ رہے اور امپائر نے صحیح فیصلہ کیا، اگر پاؤں کریز کے ’اندر‘ ہونے پر نو بال قرار دی جاتی ہے، رول بک میں ایسا ہی بتایا گیا ہے۔

تاہم، اگر کوئی بلے باز کریز پر ہوتا ہے، اوراسٹمپنگ اور رن آؤٹ جیسا ہی ہوتا ہے، تو یہ نو بال اور فری ہٹ نہیں ہونی چاہیے تھی۔

حیرت انگیز طور پر بی بی سی نے دعویٰ کیا کہ اگر سلو باؤلر کی فل ٹاس ویسٹ ہائٹ تک کرنے کی اجازت ہے تاہم اسے کندھوں سے اوپر نہیں ہونا چاہیے، تاہم ڈان ڈاٹ کام کو آئی سی سی کی ویب سائٹ پر ایسا کوئی قانون نہیں مل سکا، مزید تحقیق پر پتا چلا کہ بی بی سی کی یہ رپورٹ پرانی ہے اور 2017 میں یہ قانون تبدیل کر دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں