ٹی20 ورلڈ کپ 2022ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے اس میچ کو اگر سال کا سب سے بڑا میچ کہا جارہا تھا تو کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ اس میچ کو اگر ایک معرکہ کہا جا رہا تھا تو بھی کچھ غلط نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس میچ کی مارکیٹنگ میں جو بھی الفاظ بولے گئے، لکھے گئے، وہ کم تھے۔ یہ میچ ان الفاظ سے کہیں آگے کی چیز تھا، ایسے میچ کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

2 روایتی حریف آمنے سامنے تھے، کرکٹ کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ یعنی ورلڈکپ کا میچ تھا اور فیصلہ ہوا آخری گیند پر۔ میچ نے صرف 40 اوورز میں اتنے رنگ بدلے کہ کیا کبھی گرگٹ نے بدلے ہوں گے۔

ٹاس انڈیا نے جیتا تو پاور پلے میں ایسا لگنے لگا کہ شاید میچ کا فیصلہ ہوچکا۔ بابر اعظم اور محمد رضوان جو پچھلے 2 سالوں میں پاکستان کی جانب سے بنائے گئے ٹی20 رنز میں سے آدھے بنا چکے تھے، وہ اسکور کو کچھ خاص تکلیف دیے بغیر ہی پویلین لوٹ گئے۔

بابر اعظم کے ساتھ تو ارشدیپ سنگھ نے وہ کیا جو شاہین آفریدی مخالف بیٹسمینوں کے ساتھ کرنے میں مشہور ہیں۔ دوسری طرف رضوان جس طرح آؤٹ ہوئے، اس کے بعد پاکستانی بیٹسمینوں کی شاٹ پچ گیندوں پر مشکلات مزید واضح ہوگئیں۔

ٹی20 ورلڈ کپ کے آغاز سے کچھ دن پہلے جب افتخار احمد سے سوال پوچھا گیا کہ پاکستانی بلے باز آسٹریلیا کے بڑے میدانوں میں چھکے کیسے لگائیں گے تو افتخار نے کافی اعتماد کے ساتھ کہا تھا کہ آسٹریلیا میں چھکے لگا لیں گے۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ جواب افتخار نے اس وقت دیا تھا جب ان کی فارم کچھ خاص اچھی نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ افتخار کے اس جواب پر ان کا کافی مذاق بھی اڑایا گیا، لیکن افتخار نے ورلڈ کپ کے پہلے ہی میچ میں دکھا دیا کہ وہ بات ہوا میں نہیں کہی گئی تھی بلکہ اس کی کچھ بنیاد بھی تھی۔

افتخار کے چھکوں نے پاکستان کو میچ میں واپس لا کھڑا کیا لیکن پے در پے گرنے والی وکٹیں ایک بار پھر ایک مناسب ہدف کو پاکستان سے دُور کرتی گئیں۔ شاداب ہو یا حیدر، نواز ہو یا آصف، ارادے کسی کے غلط نہیں تھے مگر ان پر عمل درآمد کچھ درست طرح نہیں ہوسکا۔

باقی دنیا کی نسبت آسٹریلیا میں بیٹنگ کرنا کچھ مختلف ہے۔ اس کی 2 بڑی وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ یہاں میدان معمول سے کچھ بڑے ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ وکٹ پر موجود باؤنس کو سمجھنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ شاداب کو تو شاید بھیجا ہی اس لیے گیا تھا کہ مومینٹم خراب نہ ہو لیکن حیدر علی کی اس طرح سے وکٹ دینے کی عادت طویل سے طویل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔

آج شان مسعود نے بہت اچھا کھیل پیش کیا۔ اوپنرز کی ناکامی کے بعد شان نے اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح سمجھا اور آخر تک وکٹ پر موجود رہے، اور ان کی جانب سے ایک اینڈ کو سنبھالنے کی وجہ سے ہی قومی ٹیم کا اسکور 160 تک پہنچ سکا۔

مگر یہاں شاہین آفریدی اور حارث رؤف کی تعریف کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کی مختصر مگر تیز اننگ شامل نہ ہوتیں تو 160 رنز تک پہنچنا کسی بھی طور پر آسان نہیں تھا۔

یہاں ایک خیال ذہن میں آتا ہے کہ پاکستانی اوپنرز بابر اعظم اور محمد رضوان تسلسل سے اسکور کرنے اور اچھی پارٹنرشپس بنانے کے باوجود پاور پلے میں کُھل کر نہیں کھیلتے۔ پہلے 10 اوورز میں کوشش یہی ہوتی ہے کہ وکٹیں بچائی جائیں اور شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ جلدی وکٹیں گرنے کے بعد مڈل آرڈر طویل عرصے سے اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مگر اس میچ میں مڈل آرڈر سے متعلق تمام تر خدشات دُور ہوگئے اور بیٹسمینوں نے دکھا دیا ہے کہ اگر اوپنرز جلدی آؤٹ ہو بھی جائیں تو وہ ٹیم کو ایک مناسب اسکور تک لے جانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ شاداب خان، محمد نواز، افتخار احمد، شان مسعود اور حیدر علی پچھلے کچھ میچوں میں اچھی اننگ کھیل چکے ہیں اور اگر انہیں تسلسل سے مواقع ملیں تو بہتری کی امید لگائی جاسکتی ہے۔

لہٰذا آج کی شکست سے ایک سبق تو یہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اب اوپنرز کو مڈل آرڈر کی فکر میں گھلنے اور وکٹیں بچانے کی فکر کے بجائے پاور پلے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

دوسری طرف پاکستانی باؤلرز نے ابتدائی 16 اوورز میں شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کیا لیکن آخری 4 اوورز نے میچ انڈیا کے نام کردیا۔ اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستانی باؤلرز نے شاید ہی خراب گیندیں کی ہوں، بس ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کا سامنا ویراٹ کوہلی سے تھا۔

کوہلی، جس کے بارے میں چند ہفتے پہلے تک کہا جا رہا تھا کہ شاید کوہلی کا وقت ختم ہوچکا بلکہ پاکستان کے سابق فاسٹ باؤلر محمد آصف تو یہ تک کہہ چکے تھے کہ اب کوہلی کی واپسی ناممکن ہوچکی۔ لیکن آج پوری دنیا نے دیکھا کہ کوہلی نے نہ صرف واپسی کی ہے بلکہ ببانگ دہل کی ہے کہ یہ اننگ کوہلی کے ٹی20 کیریئر کی سب سے شاندار اور سب سے بہترین اننگ کہلائے جانے کے قابل ہے۔ بلکہ جب میچ کے بعد کوہلی سے اس اننگ سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے خود بھی اس اننگ کو اپنی سب سے اچھی اننگ قرار دیا۔

پاور پلے میں پاکستان باؤلرز نے بھارتی ٹیم کو مکمل طور پر قابو میں رکھا۔ نہ صرف 4 وکٹیں گرچکی تھیں بلکہ مطلوبہ رن ریٹ بھی آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ اگرچہ کوہلی وکٹ پر موجود تھے مگر رنز بنانا مشکل کام بنتا جارہا تھا۔ دوسری طرف ہاردک پانڈیا بھی کُھل کر نہیں کھیل پارہے تھے مگر جس طرح افتخار احمد نے 12ویں اوور میں 3 چھکے لگاکر واپسی کا اعلان کیا تھا، بالکل اسی طرح کوہلی اور پانڈیا نے بھی نواز کے 12ویں اوور میں 3 چھکے لگاکر یہ پیغام دیا کہ ابھی میچ ختم نہیں ہوا، بلکہ اب تو مقابلہ شروع ہوا ہے۔

اس اوور کے بعد پاکستانی کپتان گھبرا گئے اور نواز کا آخری اوور روک لیا گیا اور یہی اوور پاکستان کے خلاف نتیجے کی اصل وجہ بن گیا۔ ظاہر ہے کپتان نے یہی سوچا ہوگا کہ فاسٹ باؤلرز اگر وکٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں تو نواز کو دوبارہ لے آیا جائے، مگر اس وقت کے انتظار میں اننگ کا آخری اوور آگیا۔

شاید آخری اوور میں دی جانے والی نو-بال کی کال پاکستان کے خلاف گئی، شاید کسی اور دن اسے نو-بال قرار نہ دیا جاتا، اور شاید 10 میں سے 9 امپائرز اسے ایک قانونی گیند قرار دیں لیکن اب نہ میچ کا نتیجہ بدلا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوہلی کی شاندار اننگ پر کوئی حرف اٹھتا ہے۔

بابر اعظم کی کپتانی پر اکثر تنقید ہوتی ہے لیکن کہنے والے یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ ایک کپتان اتنا ہی اچھا ہوسکتا ہے جتنی اس کی ٹیم۔ پھر آج کل کی ٹی20 کرکٹ میں پلاننگ میں، ہر فیصلے میں تمام انتظامیہ شامل رہتی ہے۔ لیکن کچھ بہادرانہ فیصلے ایسے ہوسکتے ہیں جو میچ کا نتیجہ بدل سکتے ہیں۔ جیسے پاور پلے میں انڈیا کی 4 وکٹیں گر چکی تھیں اور پیچھے صرف دنیش کارتک ہی بچے تھے۔ ایسے میں اگر کپتان بابر اعظم میچ کو وہیں ختم کرنے کی کوشش کرتے، ایک اینڈ سے فاسٹ باؤلرز کو استعمال کرتے اور وکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے تو میچ کا نتیجہ کچھ اور ہوسکتا تھا۔ پاکستان اس وقت جیت سے صرف 2 وکٹوں کی دُوری پر تھا لیکن پھر کوہلی-پانڈیا پارٹنرشپ انڈیا کو میچ میں واپس لے آئی۔

ویراٹ کوہلی کی شاندار اننگ تو انڈیا کی اس فتح کی اہم ترین وجہ تھی لیکن ایک اور وجہ اور شاید کافی بڑی وجہ پاکستان کا 5 باؤلرز کے ساتھ جانا ہے۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے خیال پاکستان کو ٹی20 ورلڈکپ میں 4 فاسٹ اور 2 اسپن باؤلرز کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے۔ ٹیم میں دونوں اسپنرز آل راؤنڈر ہیں تو بیٹنگ کم نہیں پڑسکتی۔ 4 فاسٹ باؤلرز کو کھلانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کپتان کے پاس چوائس بڑھ جاتی ہے اور اسپنرز سے لگاتار 8 اوورز کروانے کی نوبت نہیں آتی۔

مثال کے طور پر جب بھارتی اسپنر اکشر پٹیل کو پہلے ہی اوور میں مار پڑی تو روہت شرما کے پاس 4 فاسٹ باؤلرز موجود تھے اور انہیں دوبارہ اکشر پٹیل سے باؤلنگ کروانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اگر پاکستانی ٹیم میں بھی 4 فاسٹ باؤلرز ہوتے تو شاید کپتان کو محمد نواز کے آخری اوور کو آخر تک روکنا نہیں پڑتا۔

آج کوہلی جس فارم میں تھے، میچ شاید پھر بھی لے جاتے لیکن باؤلنگ آپشن میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے امکانات بڑھ سکتے تھے۔ لیکن اگر پاکستانی ٹیم ابھی بھی اسی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنا چاہتی ہے تو بہتر یہی ہوگا کہ محمد نواز کو پاور پلے میں استعمال کیا جائے۔ نواز ٹی20 کرکٹ میں بہت عرصے تک پاور پلے میں 2 سے 3 اوورز کرواتے رہے ہیں اور کامیاب بھی رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستانی ٹیم منیجمنٹ پاور پلے میں شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کی سوئنگ سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن حارث رؤف کے اوورز کو تو روکا جاسکتا ہے۔

ٹی20 ورلڈکپ کے اگلے میچوں میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ٹیم میں 4 فاسٹ باؤلرز کی شمولیت یا محمد نواز کے پاور پلے میں استعمال سے بہتر ہوسکتی ہے۔ ساتھ ہی پاکستانی اوپنرز کو مڈل آرڈر کی ناکامی کے ڈر کی سوچ سے نکل کر پاور پلے کا استعمال بہتر کرنا ہوگا۔

فیصلہ جو بھی کیا جائے بس جلدی کیا جائے، کیونکہ اس شکست کے بعد پاکستان کے لیے آنے والے تمام ہی میچ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں