حکومت ریکوڈک معاہدے سے متعلق قانونی ترامیم پر مطمئن کرے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 14 نومبر 2022
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ ریکوڈک منصوبے کے لیے قانون میں ترمیم درست ہے بھی یا نہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ ریکوڈک منصوبے کے لیے قانون میں ترمیم درست ہے بھی یا نہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت عدالت کو مطمئن کرے کہ ریکوڈک منصوبے کے لیے قانون میں ترمیم درست ہے بھی یا نہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے ریکوڈک منصوبے پر مجوزہ قانون سازی سے متعلق عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ معدنیات ایکٹ 1948 پر مسودہ بلوچستان اسمبلی سے منظور ہونا باقی ہے، بلوچستان حکومت اور حزب اختلاف نے متفقہ طور پر ریکوڈک سے متعلق قانون سازی پر قرارداد منظور کی۔

یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک ریفرنس: سپریم کورٹ کا منصوبے پر باقاعدہ اتھارٹی، حکومتی پالیسی بنانے کا مشورہ

ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک منصوبے میں کرپشن کا کوئی امکان نہیں ہے، ریکوڈک منصوبے میں معاہدے اور بات چیت کھلے عام اور شفافیت سے ہو رہی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ ریکوڈک منصوبے کے لیے قانون میں ترمیم درست ہے بھی یا نہیں، یہ واضح نہیں کہ ہے کہ معدنیات ایکٹ 1948 وفاقی ہے یا صوبائی، اگر معدنیات ایکٹ 1948 وفاق کا قانون ہے اس میں صوبہ ترمیم کیسے کر سکتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ قوانین یا تو صوبائی ہوتے ہیں یا وفاقی، صوبے وفاقی قوانین کو اپناتے اور ان میں ترامیم کرتے ہیں۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومتِ بلوچستان، معدنیات ایکٹ 1948 کی صوبے سے متعلقہ شقوں میں ترمیم کر رہی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ریکوڈک منصوبے کے لیے کی جانے والی قانون سازی کا اطلاق باقی صوبوں میں ہوگا یا نہیں؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ جب حکومت اتنی محنت کر رہی تھی تو وفاقی قانون میں بھی ترمیم کر لیتی، حکومت عدالت سے اتنی محنت کیوں کرا رہی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ریکوڈک ریفرنس پر عدالتی معاونین مقرر، بلوچستان ہائیکورٹ بار کو نوٹس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ریکوڈک معاہدہ 15 دسمبر تک کرنا ہے، اس کیس کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ رائے دینے کے لیے وقت میسر ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ کل سے کیس کو صبح 11:30 بجے سے سنیں گے، کیس کی سماعت 15 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔

ریفرنس کا پس منظر

یاد رہے کہ کینیڈا کی مائننگ فرم بیرک گولڈ کارپوریشن کو توقع ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، بلوچستان میں ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ منصوبے میں عالمی ثالثی کے تحت 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راستہ بناتے ہوئے عدالت سے باہر کیے گئے اس کے 6 ارب ڈالر کے تصفیے کی منظوری دے گی۔

21 مارچ 2022 کو پاکستان نے غیر ملکی فرم کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ کیا تھا، معاہدے کے تحت فرم نے 11 ارب ڈالر کے جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے ہوئے کان کنی کے منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

19 جولائی 2022 کو وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کارپوریشن نے 14 اگست سے ریکوڈک گولڈ پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم 18 اکتوبر کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سفارش پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔

اس سے قبل 5 اکتوبر کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک منصوبے پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں