عمر فاروق ظہور کے خلاف ایف آئی اے تحقیقات جاری رہنے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 17 نومبر 2022
تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کی جانب سے غیر قانونی طور پر عمر ظہور کو پاکستان آنے اور جانے میں سہولت فراہم کیے جانے کا انکشاف بھی سامنے آیا—فائل فوٹو : اے پی پی
تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کی جانب سے غیر قانونی طور پر عمر ظہور کو پاکستان آنے اور جانے میں سہولت فراہم کیے جانے کا انکشاف بھی سامنے آیا—فائل فوٹو : اے پی پی

پاکستان سمیت ناروے، سوئٹزرلینڈ اور ترکی کو مختلف مالیاتی اور دیگر جرائم میں 10-2009 سے مطلوب عمر فاروق ظہور کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقات ابھی بھی جاری رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ ایف آئی اے نے عمر فاروق ظہور کے خلاف فوجداری مقدمہ ختم نہیں کیا ہے۔

عمر فاروق ظہور کا نام اس وقت موضوع بحث بن چکا ہے کیونکہ انہوں نے محض ایک روز قبل ایک میڈیا گروپ کو دیے گئے انٹرویو میں گزشتہ حکومت سے 20 لاکھ ڈالر مالیت سے زائد میں ایک بیش قیمت گھڑی خریدنے کا دعویٰ کیا جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو تحفے میں دی تھی۔

تاہم عمران خان نے اس الزام کی تردید کی ہے اور مبینہ خریدار اور متعلقہ پاکستانی میڈیا گروپ کے خلاف برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کی عدالتوں میں مقدمہ دائر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کے دوران عمر فاروق ظہور کے خلاف مقدمے کی پیروی میں ایف آئی اے سرگرم رہی لیکن اپریل میں مسلم لیگ(ن) کے برسراقتدار آنے کے بعد مقتدر حلقوں کے عمر فاروق ظہور سے مبینہ رابطوں کے پیش نظر ایف آئی اے کی اس مقدمات میں دلچسپی کم ہو گئی تھی۔

تاہم ایف آئی اے اسلام آباد کے ذرائع نے بتایا کہ ’عمر فاروق ظہور کے خلاف کیس بند نہیں ہوا ہے، ہم اس پر پیش رفت کر رہے ہیں‘۔

جنوری میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے عمر فاروق ظہور کے عالمی مالیاتی جرائم میں ملوث ہونے پر متحدہ عرب امارات کی انتظامیہ کے ساتھ ان کی وطن واپسی کے لیے چار رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔

ایف آئی اے کے 2 سابق سربراہان بشیر میمن اور سعود مرزا سے بھی عمر ظہور کو مبینہ طور پر سہولت فراہم کرنے کے الزام میں پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

ایف آئی اے کو ڈائریکٹر انٹرپول نیشنل سینٹرل بیورو (این سی بی)، جوائنٹ سیکریٹری داخلہ اور وزارت خارجہ میں مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر کے ساتھ مل کر متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ عمر ظہور اور شریک ملزم محمد زبیر کی حوالگی اور 2 کم سن بچیوں کی وطن واپسی کے حوالے سے اقدامات کرنا تھے۔

دوران تفتیش انٹرپول این سی بی اسلام آباد کے ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی کہ ایف آئی اے کے اعلیٰ افسر نے اغوا ہونے والی کمسن بچیوں (زینب عمر اور زونیرہ عمر) کی تلاش اور وطن واپسی کے لیے جاری کیے گئے انٹرپول کے نوٹس واپس لے لیے ہیں۔

زینب عمر اور زنیرہ عمر کو ان کی والدہ صوفیہ مرزا (پاکستانی ماڈل) کی قانونی تحویل سے غیر قانونی طور پر نکال کر جعلی شناختی کارڈز/سفری دستاویزات پر بیرون ملک منتقل کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے لاہور کی تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملزم عمر ظہور سے اس حوالے سے تفتیش کی جانی چاہیے تھی لیکن انٹرپول کے ریڈ وارنٹ کی واچ لسٹ میں ہونے کے باوجود انہیں 19-2018 میں ایف آئی اے کی جانب سے غیر قانونی طور پر پاکستان آنے اور جانے میں سہولت فراہم کی گئی۔

ایف آئی اے نے اس حوالے سے بھی تحقیقات کیں کہ سوئٹزرلینڈ میں ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی رقم یا نورڈیا بینک فراڈ اوسلو 2010 سے حاصل کردہ 8 کروڑ 90 لاکھ کرونر کی رقم کا کوئی حصہ انہوں نے پاکستان میں منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کیا یا نہیں۔

ایف آئی اے اس بات کی بھی تحقیقات کر رہا ہے کہ عالمی سطح پر مطلوب مفرور ملزم عمر ظہور 2017 سے 2019 کے درمیان کم از کم 32 بار پاکستان آنے میں کیسے کامیاب ہوا حالانکہ اس کے خلاف 2015 میں ریڈ نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں