ارکانِ قومی اسمبلی کا سیلاب متاثرہ علاقوں کے سروے میں ’دانستہ غلطیوں‘ کا الزام

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2022
ایوان میں یہ معاملہ سردار ریاض مزاری (راجن پور) اور افضل ڈھانڈلہ (بھکر) نے ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اٹھایا—فوٹو : این اے/ٹوئٹر
ایوان میں یہ معاملہ سردار ریاض مزاری (راجن پور) اور افضل ڈھانڈلہ (بھکر) نے ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اٹھایا—فوٹو : این اے/ٹوئٹر

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے سیلاب سے متاثرہ 3 اضلاع میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے کیے گئے سروے میں مبینہ غلطیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ متاثرہ افراد کے ناموں کی حامل فہرستیں سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر مرتب کی گئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین سردار ریاض مزاری (راجن پور) اور افضل ڈھانڈلہ (بھکر) نے ایک توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعے اٹھایا گیا اور الزام عائد کیا گیا کہ غیر معمولی بارشوں اور سیلاب کے نقصانات کے جائزے کے سروے کے دوران حکام کی جانب سے مرتب کی گئی فہرستوں میں حقیقی طور پر متاثر ہونے والے افراد کے نام غائب ہیں۔

انہوں نے صوبائی اور ضلعی حکام پر سیاسی بنیادوں پر فہرستیں تیار کرنے کا الزام عائد کیا جس کے تحت اپنے سیاسی مخالفین کے حلقوں میں موجود متاثرین کے نام فہرستوں سے خارج کردیے گئے۔

سردار ریاض مزاری نے الزام عائد کیا کہ ان کے حلقے میں کرایا گیا سروے مکمل طور پر غلط ہے، سیلاب میں اپنی کھڑی فصلیں اور مکانات کھو دینے والوں کے نام متاثرین کی فہرست سے خارج کر دیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ فہرست میں ایک ایسے شخص کا نام بھی شامل ہے جس کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ اس کی 60 ایکڑ پر پھیلی کپاس کی فصل ضائع ہوئی جبکہ درحقیقت اس نے کبھی ایک ایکڑ پر بھی فصل کاشت نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ ’نقصانات کا تخمینہ لگاتے ہوئے منصفانہ رویہ اپنانا چاہیے تھا لیکن حکام نے سیاسی بنیادوں پر متاثرہ افراد کی فہرستوں میں اپنے پسندیدہ افراد کے نام شامل کیے۔

افضل ڈھانڈلہ نے بھکر کی ضلعی انتظامیہ پر سروے کے عمل کے دوران جانبدارانہ پالیسی اپنانے کا الزام عائد کیا اور حکومت سے علاقے میں دوبارہ سروے کا حکم دینے کی استدعا کی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ این ڈی ایم اے یا پی ڈی ایم اے نے ان کے حلقے میں لوگوں کو کوئی امداد فراہم نہیں کی۔

وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے قومی اسمبلی میں ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکام کی جانب سے واقعی ایسا کیا گیا ہے تو یہ بڑی زیادتی ہے، وفاقی حکومت نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) سے جنوبی پنجاب کے متاثرہ اضلاع (ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور میانوالی) میں دوبارہ سروے کرنے کا کہہ سکتی ہے۔

تاہم بعد ازاں انہوں نے سروے میں کسی بھی دانستہ غلطی کے تاثر کی واضح طور پر تردید کی اور وفاقی اور صوبائی حکام سمیت سروے کے عمل میں شریک تمام افراد کی غیر جانبدارانہ سروے کروانے پر تعریف کی۔

الزامات کی تردید کرتے ہوئے وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے ایوان کو آگاہ کیا کہ حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز اور ضلعی انتظامیہ کے ذریعے مشترکہ طور پر سروے کرایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر غلط ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور اسٹیک ہولڈرز نے قومی جذبے کے تحت غیر جانبدارانہ سروے کیا، اگر ہم نے اس عمل کو متنازع بنایا تو یہ قومی المیہ ہو گا، اس پورے عمل میں کسی تفریق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔

مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ این ڈی ایم اے نے اس عمل میں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے حکام کی صرف مدد کی ہے، صوبوں کو 30 نومبر تک سروے رپورٹس این ڈی ایم اے کو جمع کرانی تھیں لیکن گلگت بلتستان کے سوا کسی نے رپورٹس جمع نہ کروائیں’۔

متاثرین کو وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اعلان کردہ کوئی معاوضہ تاحال نہ ملنے کے الزام پر ردعمل دیتے ہوئے مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ حکومت سیلاب کے دوران جاں بحق ہونے والے 3 ہزار 73 افراد میں سے 854 کے ورثا کو 10 لاکھ روپے فی کس معاوضہ ادا کر چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پہلے ہی این ڈی ایم اے کو رقم جاری کر چکی ہے اور تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد باقی لوگوں کو یہ رقم ادا کر دی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں