Dawnnews Television Logo

’َاِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان‘ کے فاتح: موسیقی اور ثقافت کا جشن

مقابلے میں کامیاب ہونے والی تین فلموں کو بالترتیب 6 لاکھ روپے، ساڑھے3 لاکھ روپے اور ڈھائی لاکھ روپے کی انعامی رقوم دی گئیں۔
اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2022 01:38pm

ڈان ڈاٹ کام اور ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) نے پاکستانی ثقافت اور موسیقی کی شاندار تقریب کے انعقاد کے ذریعے ممتاز ویڈیو مقابلے ’اِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان‘ کے پانچویں ایڈیشن کا جشن منایا۔

اس مقابلے میں کامیاب ہونے والی تین فلموں کو بالترتیب 6 لاکھ روپے، ساڑھے3 لاکھ روپے اور ڈھائی لاکھ روپے کی انعامی رقوم دی گئیں۔

پہلا انعام: خانہ بدوش

خرم علی، سحر علی، حمزہ شاہد اور علی ساحل کی فلم

پاکستان کی ثقافت میں سانپ کو خوف اور موت کی علامت سمجھا جاتا ہے، مگر یہ اپنے سحر انگیز رقص کی بدولت لوگوں کو جکڑ لیتا ہے۔

خانہ بدوش فلم میں ان سپیروں کے بارے میں دکھایا گیا ہے جو زہریلے سانپوں کے درمیان اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور لوگوں کو ثقافت اور موسیقی کے حسین امتزاج کے ذریعے محظوظ کرتے ہیں۔

خرم علی اور ان کی ٹیم کے لیے پہلا انعام ان کی شاندار کارکردگی کا تسلسل ہے، جیسا کہ ان کی فلم ’راوڈی‘ کو بھی گزشتہ سال 2021کے مقابلے میں نمایاں مقام حاصل رہا۔

معروف فلم ساز اور اِٹ ہیپنز اونلی ان پاکستان ویڈیو کہانی سنانے کے مقابلے کے لیے خصوصی جیوری کے رکن سرمد کھوسٹ نے اس فلم کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس فلم نے قدیم دنیا کی طرف توجہ دلائی اور اسے ماضی سے دوبارہ جوڑنے کی کوشش کی‘۔

علاوہ ازیں ڈی ڈبلیو پریمیم لائبریری اور کونٹینٹ ڈسٹریبیوشن کے سربراہ لوکاس آرنلڈ، جو اِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان ویڈیو کہانی سنانے کے مقابلے کے لیے خصوصی جیوری کے رکن بھی ہیں، نے فلم کے اعلیٰ تکنیکی پہلوؤں کی بھرپور تعریف کی۔

انہوں نے کہا کہ دل کش فضائی عکس بندی کے ذریعے زمین کی وسعت اور خوبصورتی کو دکھایا گیا ہے۔

دوسرا انعام: بلائنڈ میوزک ٹیچر (نابینا استاد موسیقی)

لاسٹ مائل فلمز کے روح رواں عبدالباسط اور جنید مختار کی فلم

موسیقی کو دنیا بھر میں ثقافت کے اہم ترین پہلوؤں میں سے ایک، لازم و ملزوم اور ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ جڑا ہوا سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی ثقافت زندگی اور رونق سے خالی ہوتی ہے۔

بلائنڈ میوزک ٹیچر ، نظام الدین اور توقیر حسین کے لیے ایک غزل کی حیثیت رکھتی ہے، جن کی دھنیں ان کی طاقت اور روح کی توانائی اوران کے ارد گرد پہاڑوں سے مل کر ہنزہ کی وادیوں میں گونجتی ہیں۔

یہ فلم نامساعد مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پاکستانیوں کے ثابت قدم اور پرعزم جذبے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جس طرح ان دو افراد نے اپنی بصارت کی کمزوری کو اپنی زندگیوں یا اپنے خوابوں کو متاثر نہیں کرنے دیا اور طلبہ کو عالمی سطح پر پرفارم کرنے کی ترغیب دی ہے۔

سرمد کھوسٹ نے فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہانی سنانے کا ایک بہت ہی منفرد اور دل نشین انداز ہے جس میں میلو ڈرامے کا سہارا نہیں لیا گیا یا بیساکھی کے طور پر اس خطے کے ’نمائشی عکس‘ پر انحصار نہیں کیا گیا۔

اس دوران آرنلڈ نے فلم کے اختصار کے باوجود اس کی گہرائی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ ’ایک خوبصورت مثال ہے کہ کس طرح بہترین ویڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے دو نابینا موسیقاروں کی تقریباً پوری کہانی کو چند منٹوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔‘

تیسرا انعام: سکندر صنم

ایم رفیق، عبدالنفیس، محمد ایوب اور مہران علی شاہ کی فلم

ثقافت سے متعلق ان تمام گیتوں کے بارے میں جنہیں ہم بھول جاتے ہیں (یا نظر انداز کردیتے ہیں) پاکستان بھی اس حوالے سے مختلف نہیں ہے، اکثر اس کے اپنے ثقافتی عناصر متصادم ہوتے ہیں جو صدیوں پرانے ہیں۔

اس فلم کا نام سکندر صنم ایک فرد کے نام پر ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ کس طرح ثقافت بعض افراد کو مسترد کر سکتی ہے مگر پھر بھی وہ لوگ بالآخر اپنے عزم اور جذبے کے زور پر دوسروں کو اس بات پر مجبور کردیتے ہیں کہ انہیں اپنایا اور قبول کیا جائے ۔

اس فلم میں ایک فرد، رقاصہ اور کوریوگرافر کو نمایاں کیا گیا، جس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان لوگوں کے سامنے جن میں اس کا خاندان بھی شامل تھا، ہرگز ہار نہیں مانے گا اور اس نے اپنی برادری میں ایک قابل احترام اور قابل قبول شخصیت بننے کے لیے اپنا راستہ بنایا۔ !

آرنلڈ نے اپنے تبصرے میں اپنے جذبات کی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک بہترین کیمرا ورک اور صحیح موضوع کو تلاش کرنے کی مہارت کے ساتھ یہ فلم معاشرے میں مکمل یقین اور مساوی حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی اہمیت کی طرف نشان دہی کرتی ہے۔‘

سرمد کھوسٹ نے اس فلم پر اظہار خیال کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ اس فلم میں صنفی اصولوں پر بہت اہم تبصرہ کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اسے دیکھنا چاہیے اور خاص طور پر وہ لوگ جو صنف پر بہتر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔


دو شاندار فلموں کو اعزازی طور پر تسلیم کیا گیا۔ ہر ایک نے ڈیڑھ لاکھ روپے کی انعامی رقم جیتی۔

اعزازی تذکرہ: روشن

التمش سلطان کی فلم

اس بات میں مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ پاکستان میں تعلیمی بحران ہے، گزشتہ ماہ یونیسیف نے کہا تھا کہ پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جن کی اسکولوں تک رسائی ممکن نہیں کیونکہ سیلاب کے باعث 27 ہزار اسکول تباہ ہوگئے ہیں۔

روشن فلم میں ایک ایسے شخص کو شاندار خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جو اپنے اردگرد کے سخت حالات یا کسی حکومتی امداد کے بغیر بچوں کو ناخواندگی کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے روشنی بننے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ایک واحد مقصد کے ساتھ تپتے صحرا کو پار کرتا ہے، تاکہ ایسے دیہات میں بچوں کو تعلیم فراہم کی جائے جہاں کوئی اسکول نہیں ہے۔

وہ یہ ایسا اپنی خاطر نہیں کرتا بلکہ بچوں اور ملک کے مستقبل کے لیے کرتا ہے جو اس کی حب الوطنی کا شان دار مظہر ہے۔ پاکستانی معاشرے کا یہ خاصہ ہے کہ جب ہم وطنوں پر مصائب یا مشکل کی گھڑی آتی ہے تو ہر ایک اس کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور یہ فلم روشن کی اس کی روشن مثال ہے۔

سرمد کھوسٹ نے روشن کی سنیما ٹوگرافی کی بہت تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے انتہائی اثر انگیز طور پر زمین کی اداسی اور وسعت کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔

تاہم آرنلڈ کا تبصرہ اس سے مختلف تھا، انہوں نے کہا کہ اگرچہ روشن کی پروڈکشن ویلیو سادہ لگتی ہے، کہانی دل کو چھونے والی ہے اور اسے ایک سادہ آدمی کی زندگی سے مطابقت رکھنے والی رفتار سے سنایا گیا ہے جو بہرحال اپنے بچوں کے حالاتِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے سب کچھ کرتا ہے۔

قابل احترام تذکرہ: منگرہار

مریم قریشی، اسد بن اجمل کی فلم۔

ہمارا دوسرا اعزازی تذکرہ اس بات کا ایک تلخ لیکن اہم امتحان ہے کہ کس طرح ٹیکنالوجی اور جدیدیت کی قوتیں ثقافت اور موسیقی کو متاثر کرتی ہیں اور اس میں تبدیلی لاتی ہیں۔

غلام حسین اور اس کا گروپ ڈھول والا (Timpanists) کی ایک معدوم ہوتی نسل ہے جو اپنے آبائی اور وراثتی فن پر فخر کرتے ہیں، مگر اس کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ ان کی اولاد اپنے بڑوں مطابقت نہیں رکھتی۔

یہ فلم بنیادی طور پر ایک ٹائم کیپسول ہے، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ نئے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے ثقافت اور موسیقی کی منتقلی کیسے ختم ہو جاتی ہے یا آخر کار تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔

لوکاس آرنلڈ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ اس فلم میں منگرہار نے نقطہ نظر کو تبدیل خود کو پرانی نسل میں ڈھالنے میں کامیابی حاصل کی ہے جو ایسے دور میں جب روایت اور حال میں ٹکراؤ ہو، انتہائی اہم ہے۔

سرمد کھوسٹ نے فلم پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا کہ کہانی دل کو چھونے والی ہے لیکن اسے ہلکے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پیغام آپ کے جذبات پر اثر انداز ہوئے بغیر دل تک پہنچ رہا ہے۔


’اِٹ ہیپنز اونلی اِن پاکستان‘ ویڈیو کہانی اور تصویری مضمون نگاری کا ایک ملک گیر مقابلہ ہے جس کا اہتمام ڈان ڈاٹ کام اور جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے (DW) نے کیا۔

ان مقابلوں کے 5 سال مکمل ہونے پر اس سال کے ایڈیشن کی بدولت لوگوں کو پاکستان کی سیر کرنے اور اس کی شان دار ثقافت اور موسیقی کا جشن منانے کا موقع ملا۔

جیتنے والوں کو ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ مستقبل کے ویڈیو پروجیکٹس پر کام کرنے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈان پریزم کے ساتھ شراکت یا تعاون کے لیے ان مقابلوں کے فاتحین اور فائنلسٹ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

اس مقابلے کے لیے 7 اکتوبر سے 18 اکتوبر2022 تک انٹریز قبول کی گئیں۔