سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ بھرتیوں کے لیے شناختی کارڈ کے بجائے ڈومیسائل کو ترجیح دی جائے تاہم اگر کسی شخص کے گھر کا مستقل پتہ معلوم کرنے کے لیے قومی شناختی کارڈ کو ترجیح دی گئی تو ڈومیسائل کا تصور بے معنی ہو جائےگا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلے میں لکھا کہ کسی بھی شخص کی بھرتی کے عمل کے دوران مستقل پتے کی جانچ کے لیے ڈومیسائل کو مستقل دستاویز تصور کیا جائے۔

عدالت عظمیٰ نے اگست 2018 اور اگست 2019 کے درمیان پشاور ہائی کورٹ کے مختلف فیصلوں کے خلاف خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر ، ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری سیکریٹری اور خیبر پختونخوا کے ایجوکیشن ڈائریکٹر کی طرف سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

پرائمری اسکول ٹیچر کے عہدے کے لیے متعدد خواتین امیدواروں نے درخواست دی تھی اور ان کے نام یونین کونسل کی جانب سے مرتب کردہ میرٹ لسٹ میں شامل کیے گئے تھے۔

تاہم بعد میں انہیں اس بنیاد پر تعینات کرنے سے انکار کردیاکہ ان کے شناختی کارڈ کے مطابق وہ علاقے کے مستقل رہائشی نہیں ہیں یا ان کے پتے میں فرق ہے۔

پشاور ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ تقرریوں سے پہلے پرائمری اسکول ٹیچر کے ڈومیسائل کی تصدیق کی جائے، تاہم محکمہ تعلیم نے کمیٹی کی جانب سے ڈومیسائل کی تصدیق کے بعد تقرری سے انکار کردیا جس کی وجہ سے پشاور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

اس معاملے پر عدالت عظمیٰ نے مشاہدہ کیا کہ اس سے قبل امیدواروں نے واضح طور پر زور دیا کہ ان کے پاس متعلقہ یونین کونسل کے ڈومیسائل موجود ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے ڈومیسائل میں لکھے پتے کو مستقل پتا قرار دینے سے متعلق بھی آگاہ کیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 میں واضح طور پر درج ہے کہ کوئی بھی شخص ایک سے زائد ڈومیسائل حاصل نہیں کرسکتا، اگر ڈومیسائل پر لکھے پتے پر غور کرنے کے بجائے شناختی کارڈ کی بنیاد پر نوکریاں دی گئیں تو اس سے پیچیدگیوں میں اضافہ ہوگا۔

عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ لہٰذا تمام مقاصد کے لیے سب سے پہلے ڈومیسائل کے سرٹیفکیٹ کو ترجیح دی جائے، اس لیے بھرتیوں کے لیے اگر شناختی کارڈ کو ڈومیسائل پر ترجیح دی گئی تو ڈومیسائل کا تصور بے معنی ہو جائے گا۔

عدالت نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اشتہار کے مطابق تمام امیدواروں کے کنٹریکٹ یا مستقل بنیادوں پر تقرر کے لیے داخلہ ٹیسٹ میں شرکت کی اجازت دی گئی تاہم متعدد امیدوار ٹیسٹ کے لیے اہل تھے، ان میں سے کچھ امیدواروں نے اعلیٰ پوزیشن حاصل کی لیکن انہیں میرٹ لسٹ سے خارج کر دیا گیا۔

عدالت عظمیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ داخلہ ٹیسٹ سے پہلے امیدواروں کو دستاویزات کی جانچ پڑتال کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا اور امیدواروں کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات کی بنیاد پر ٹیسٹ پاس کرنے اور میرٹ کے تحت نمبر حاصل کرنے کے باوجود انہیں عین موقع پر تقرری سے انکار کردیا گیا۔

ان ریمارکس کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو برقرار رکھا۔

تبصرے (0) بند ہیں