اسلام آباد بلدیاتی انتخابات کے قانون میں ترامیم کیلئے قومی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس آج طلب

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2022
اجلاس ایسے وقت میں طلب کیا گیا ہے جب سیاسی جماعتیں 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر
اجلاس ایسے وقت میں طلب کیا گیا ہے جب سیاسی جماعتیں 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر

وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے قانون میں ترامیم کے بل کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس آج طلب کر لیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بل کا مقصد یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ اور میئر کے عہدے کے لیے براہ راست انتخابات کرانا ہے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں طلب کیا گیا ہے جب سیاسی جماعتیں 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

ایک حوالے سے ایک اہم پیشرفت اس وقت دیکھنے کو ملی جب حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک سینئر رکن نے اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کردیں۔

رہنما مسلم لیگ (ن) کی جانب سے دائر درخواست میں انتخابات کے التوا کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے سینئر رکن کی جانب سے دائر درخواست میں مذکورہ قانون میں تبدیلیاں کرنے پر وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مذکورہ تبدیلیاں انتخابات میں تاخیر کا سبب بن سکتی ہیں۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے گزشتہ روز 10 نکاتی ایجنڈا جاری کیا جس میں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے نام سے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ (ترمیمی) بل 2022 بھی شامل ہے۔

وزیر داخلہ ایوان میں ایک تحریک بھی پیش کریں گے جس میں اسمبلی کے قواعد کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا تاکہ اراکین مجوزہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھیجنے اور پارلیمانی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر اسی دن منظور کر سکیں۔

پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے بل کی منظوری کے بعد صدر کی رسمی منظوری سے قبل اسے سینیٹ سے بھی منظور کروانا ہوگا۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی نے 20 دسمبر کو بھی غیر ملکی سرمایہ کاری (فروغ اور تحفظ) بل کو اسی انداز میں منظور کرتے ہوئے رولز کو معطل کرنے کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا تھا۔

وفاقی کابینہ پہلے ہی 19 دسمبر کو ایک سرکلر کے ذریعے قانون میں ترامیم کی منظوری دے چکی ہے جس کے بعد وزارت داخلہ نے نشستوں کی تعداد 101 سے بڑھا کر 125 کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا۔

علاوہ ازیں وفاقی کابینہ نے اسلام آباد کے میئر کے براہ راست انتخاب کی سمری کی بھی منظوری دے دی ہے اور اس ضروری ترمیم کے لیے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جارہا ہے۔

تاہم اس پیش رفت کے باوجود الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات مؤخر کرنے سے انکار کردیا اور پہلے سے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق انتخابات کے انعقاد کا عزم ظاہر کیا۔

مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے اٹھایا ہے، اس لیے اب اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کی قسمت کا انحصار عدالتی فیصلے پر ہے۔

درخواست میں ترلائی یونین کونسل سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار شہزاد اورنگزیب نے یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کے حکومتی فیصلے کا دفاع کیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ 19 اپریل 2010 کو آئین میں 18ویں ترمیم کی منظوری تک ضلع اسلام آباد کا زیادہ تر حصہ مقامی حکومت کے بغیر ہی عوام کے منتخب نمائندوں کے زیرِ انتظام رہا۔

اس میں کہا گیا کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 کے سیکشن 5 اور 6 میں وفاقی حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی علاقے کو یونین کونسل قرار دے کر اس کے موجودہ علاقے کو 2 حصوں میں تقسیم کرے اور اسلام آباد میں یونین کونسلز کی تعداد کا نوٹی فکیشن جاری کرے، وفاقی حکومت نے حال ہی میں یونین کونسلز کی تعداد 125 تک بڑھا دی ہے۔

درخواست گزار نے مختلف علاقوں کی ووٹر لسٹوں میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی اور کہا کہ ایسے حالات میں جو بھی الیکشن ہوں گے وہ متنازع ہوں گے اور اسے آزادانہ اور منصفانہ الیکشن قرار نہیں دیا جاسکتا، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ 101 یو سیز میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما علی نواز اعوان نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں 31 دسمبر کو 101 یو سیز میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا ہے، تاہم وفاقی حکومت نے اس عمل میں خلل ڈالنے کے لیے وہی کیا جو ان سے امید کی جارہی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کا یونین کونسلز کی تعداد میں اضافہ کرنا انتخابات کے عمل کو متاثر کرنے کی واضح کوشش ہے جو اس عدالت کے فیصلے کی صریح خلاف ورزی ہے۔

درخواست کے مطابق وفاقی حکومت عدالت کی ہدایات سے اچھی طرح واقف تھی تاہم، انتخابات سے محض 11 روز قبل یو سیز کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ کرنا عدالت کے واضح حکم کی صریح بے حرمتی ہے۔

لہٰذا عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے تمام ارکان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں