ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ انہوں نے اردن میں ہونے والی حالیہ کانفرنس کے موقع پر اپنے سعودی ہم منصب سے گفتگو کی جو کہ 2016 میں دونوں ممالک کے تعلقات منقطع ہونے کے بعد سے حریف ریاستوں کے حکام کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کی پہلی ملاقات ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور ایران خطے میں شام اور یمن سمیت ہر تنازع میں ایک دوسرے کے مخالف فریق رہے ہیں۔

کشیدگی میں کمی کے لیے عراق گزشتہ برس سے اب تک سعودی اور ایرانی حکام کے درمیان 5 اجلاسوں کی میزبانی کر چکا ہے جن میں سے آخری اجلاس اپریل میں ہوا تھا، تاہم اس میں کوئی سفارتی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ٹوئٹ میں ان متعدد وزرائے خارجہ کی فہرست شیئر کی جن کے ساتھ انہیں اردن کانفرنس کے موقع پر دوستانہ بات چیت کرنے کا موقع ملا۔

ٹوئٹ کے مطابق انہوں نے عمان، قطر، عراق اور کویت کے وزرائے خارجہ سمیت اپنے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان السعود سے بھی بات چیت کی۔

سعودی وزارت خارجہ نے اس پیش رفت پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

حسین امیرعبداللہیان نے لکھا کہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے ایران کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کے لیے سعودی عرب کی آمادگی کی یقین دہانی کروائی۔

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی (آئی آر این اے) کی جانب سے رپورٹ کردہ علیحدہ تبصروں میں بتایا گیا کہ شہزادہ امیرعبداللہیان نے عراق میں ہونے والی پیش رفت کو جاری رکھنے کے لیے رضامندی ظاہر کی۔

آئی آر این اے کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’ہم سعودی عرب کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ بھی ایسا ہی چاہتے ہیں‘۔

ایران میں مظاہرے پھوٹ پڑنے کے بعد سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے، پاسداران انقلاب نے سعودی عرب کو اپنے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے کہا جبکہ ایرانی انٹیلی جنس وزیر نے سعودی عرب کو خبردار کیا کہ ایران سفارتی سطح پر تحمل کی پالیسی جاری رکھنے کا ضامن نہیں ہے۔

ایران کے متنازع جوہری پروگرام نے بھی تناؤ میں اضافہ کیا ہے، ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی پر بات چیت ستمبر سے تعطل کا شکار ہے۔

شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے دسمبر کے اوائل میں کہا تھا کہ بدقسمتی سے اشارے بہت زیادہ مثبت نہیں ہیں، اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو خلیجی عرب ریاستیں اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں گی۔

اردن میں ہونے والے اجلاس کا اہتمام فرانس اور عراق نے کیا تھا جس کا مقصد عراق اور وسیع تر خطے میں استحکام کی معاونت کرنا تھا، یہ اجلاس سعودی عرب اور ایران کے درمیان کسی ممکنہ دوطرفہ اجلاس کے بغیر اختتام پذیر ہو گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں