گوادر: ’حق دو تحریک‘ دھرنے کےخلاف کارروائی، سینئر رہنماؤں سمیت درجنوں کارکن گرفتار

اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2022
دھرنے کے خلاف کارروائی پر گوادر سے مکران کوسٹل ہائی وے کو مظاہرین نے بند کردیا — فوٹو: اسمٰعیل ساسولی
دھرنے کے خلاف کارروائی پر گوادر سے مکران کوسٹل ہائی وے کو مظاہرین نے بند کردیا — فوٹو: اسمٰعیل ساسولی

بلوچستان کے بندرگاہی شہر گوادر میں گزشتہ 2 ماہ سے جاری ’حق دو تحریک‘ کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے پولیس نے رات گئے کارروائی کرتے ہوئے تحریک کے سینئر رہنماؤں سمیت درجنوں کارکنان اور مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔

گوادر میں پرامن بڑے احتجاجی مظاہروں کی قیادت کے بعد قومی سطح پر توجہ کا مرکز بننے والے جماعت اسلامی کے مقامی رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن نے گزشتہ سال دسمبر میں ایک ماہ کے طویل دھرنے کے بعد صوبائی حکومت کے ساتھ طے ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے 2 ماہ قبل ایک بار پھر گوادر میں دھرنا دیا جو تاحال جاری ہے۔

مظاہرین صوبے سے ٹرالر مافیا، پینے کے صاف پانی سیمت دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

گزشتہ رات دیر گئے گوادر میں 2 ماہ سے جاری ’حق دو تحریک‘ کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے پولیس نے کارروائی کی، مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے شیلنگ کی گئی اور پولیس نے دھرنے کے لیے لگائے گئے ٹینٹ اکھاڑ دیے۔

پولیس نے دھرنا گاہ سے حق دو تحریک کے سینئر رہنما حسین واڈیلہ سمیت دیگر رہنماؤں، درجنوں کارکنوں اور مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔

ڈپٹی کمشنر گوادر عزت نذیر بلوچ نے بتایا کہ گوادر میں ایکسپریس وے کو کھلوانے کے لیے گزشتہ شب پولیس نے کارروائی کی ہے جس پر وہاں دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے لوگوں نے مزاہمت کی، اس دوران پولیس نے حسین واڈیلہ سمیت 20 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔

دوسری جانب دھرنے پر کارروائی کے خلاف گوادر شہر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جارہی ہے، گوادر کے تمام کاروباری مراکز بند ہیں اور گوادر سے مکران کوسٹل ہائی وے کو خواتین نے بند کردیا ہے جب کہ ضلع گوادر کی تحصیل پسنی، اورماڑہ اور جیوانی میں بھی احتجاج کیا جارہا ہے۔

احتجاج کے دوران گوادر میں موبائل فون نیٹ ورکس بند ہیں، اس حوالے سے ڈی سی گوادر اور ایس ایس پی گوادر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مواصلاتی ذرائع معطل ہونے اور موبائل فون نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

پولیس کارروائی پر اظہار مذمت

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پولیس کارروائی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ گوادر میں 2 ماہ سے جاری پرامن دھرنے کے خلاف پولیس آپریشن، نہتے مرد اور خواتین پر تشدد اور گرفتاریاں انتہائی قابل مذمت ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا مسائل حل کرنےکے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کرنا شکست خوردگی کی علامت ہے۔

امیر جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا کہ معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور گرفتار قائدین اور کارکنان کو فوری رہا کیا جائے۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا کہ گودار میں مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں حق دو گوادر تحریک کے جاری پر امن دھرنے پر پولیس ایکشن اور قیادت،کارکنان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان معاہدہ کرکے بھاگ گئی، صوبائی حکومت عوام کو لاٹھی،گولی، تشددکے بجائے دستوری حقوق دے، شرمناک اقدام پر معافی مانگے، گرفتار قیادت، کارکنان کو رہا کرے اور معاہدے پر عملدرآمد کرے۔

اسی طرح نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما جان بلیدی نے دھرنے کے شرکا کی گرفتاری پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت دھرنے کے شرکا سے بامقصد مذکرات کرے، گرفتار رہنما اور کارکنان کو رہا کرے۔

گوادر پورٹ بند کرنے کی کوشش پر مجبوراً کارروائی کرنا پڑی، ترجمان حکومت بلوچستان

حکومت بلوچستان نے حق دو تحریک کے احتجاج اور دھرنے پر پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج سب کا جمہوری حق ہے، صوبائی حکومت اس حق کا احترام کرتی ہے، صوبائی حکومت مسائل اور مطالبات کے حل کے لیے بات چیت اور مذاکرات پر مکمل یقین رکھتی ہے۔

ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا کہ حکومت نے کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں دیے گئے مختلف دھرنے اور احتجاج بات چیت کے ذریعے ختم کیے، اپنی پالیسی کے تحت حق دو تحریک کے ساتھ بھی حکومت نے مختلف سطحوں پر مزاکرات کیے، چند ماہ قبل وزیراعلیٰ بلوچستان نے گوادر جاکر مولانا ہدایت الرحمٰن سے مذاکرات کر کے دھرنا ختم کرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ حق دو تحریک کے بیشتر مطالبات تسلیم کرکے ان پر عملدرآمد شروع کیا گیا، موجودہ جاری دھرنے اور احتجاج کو بھی حکومتی سطح پر کھلے ذہن اور خلوص نیت سے مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی، دھرنے کے مطالبات پورے کرنے کے لیے جاری عمل کو مزید تیز کیاگیا، گزشتہ روز صوبائی وزیر داخلہ اور صوبائی وزیر نے حکومتی ٹیم کے ہمراہ حق دو تحریک کے رہنماؤں سے طویل مذاکرات کیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے مطالبات کی جلد تکمیل کی مکمل یقین دہانی کرائی گئی، یہ امر باعث افسوس ہے کہ تحریک کی جانب سے صوبائی حکومت کی مخلصانہ کوششوں اور بات چیت کی خواہش کو کمزوری سمجھا گیا، احتجاج اور دھرنوں کی آڑ میں امن خراب کرنے اور شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنا کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا۔

ترجمان بلوچستان حکومت نے کہا کہ امن و امان برقرار رکھنا اور عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، کسی کو حکومتی رٹ چیلنج کرنے اور قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، آج دھرنے کے شرکا کی جانب سے گوادر پورٹ کی طرف مارچ کرنے اور پورٹ کو بند کرنے کی کوشش کی گئی، حق دو تحریک کا طرز عمل اور رویہ اشتعال انگیزی پر مشتمل ہے، یہ رویہ نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شرکا کی پورٹ کی جانب پیش قدمی روکنے کے لیے مجبوراً پولیس کو کارروائی کرنا پڑی، پولیس کارروائی انتہائی محدود سطح پر کی گئی ہے تاکہ عام شہری متاثر نہ ہو، صوبائی حکومت اب بھی مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے افہام و تفہیم کی فضا میں مسئلہ کے حل کے لیے پرعزم ہے۔

مطالبات

صوبائی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال منظور کیے گئے مطالبات میں پاک-ایران سرحد کے معاملات کی ذمہ داری فرنٹیئر کور (ایف سی) سے لے کر ضلعی انتظامیہ کو دی گئی ہے۔

یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بحری امور کی ایجنسی، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ماہی گیری بلوچستان کے سمندر میں ٹرالرز کی جانب سے مچھلی کے غیر قانونی شکار کے خلاف اور غیر ملکی ٹرالر مافیا کو ضلع گوادر کے پانیوں سے باہر نکالنات اور گوادر سمیت پورے صوبے کے ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مشترکہ پیٹرولنگ کریں گے۔

ایکسائز، ٹیکسیشن اور اینٹی نارکوٹکس کے محکمے نے ضلع گوادر میں تمام شراب خانے بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے اور امن و امان کی صورت بگڑنے کے خدشے کے تحت اس پر فوری عمل درآمد کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں