روس سے گیس درآمد کرنے کیلئے پاکستان میں بنیادی انفرااسٹرکچر ناکافی

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2022
پاکستان میں طویل مدت سے زیر التوا 2 ایل این جی ٹرمینلز کی تعمیر سست روی کا شکار ہے— فائل فوٹو: اے پی
پاکستان میں طویل مدت سے زیر التوا 2 ایل این جی ٹرمینلز کی تعمیر سست روی کا شکار ہے— فائل فوٹو: اے پی

پاکستان کو روس سے گیس کی درآمد پر دونوں ممالک کی رضامندی کے باوجود موجودہ انفرااسٹرکچر کی ناکافی صلاحیت کے سبب عملاً اس کا امکان فی الوقت نظر نہیں آرہا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2 وجوہات کے سبب فی الوقت روس سے گیس کی بڑے پیمانے پر درآمد ممکن نہیں ہوگی، ایک وجہ گیس کی درآمدات کے لیے بنیادی انفرااسٹرکچر کی کمی اور دوسری وجہ گیس کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کے لیے موجودہ پائپ لائن سسٹم کی ناکافی صلاحیت ہے۔

عارف حبیب لمیٹڈ میں ریسرچ سربراہ طاہر عباس نے کہا کہ ’اگر آج ہم روس سے گیس خرید بھی لیں تو اس کی ترسیل کا فوری آغاز ممکن نہیں کیونکہ اس کے لیے درکار بنیادی انفرااسٹرکچر موجود نہیں ہے، اس مسئلے کو طویل المعیاد بنیادوں پر حل کرنا ہوگا‘۔

روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ روس طویل مدت کے لیے پاکستان کو وسطی ایشیا یا ایران کے ذریعے قدرتی گیس فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔

روس اپنی توانائی کے خریداروں میں تنوع پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد اسے بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی کا سامنا ہے، روس توانائی پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، گیس کی عالمی برآمدی منڈی میں روس کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔

آئندہ ماہ روس کے وزیر توانائی کی سربراہی میں ایک روسی وفد کی پاکستان آمد متوقع ہے، وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے حال ہی میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان، ایل این جی کی درآمد کے لیے نجی اور سرکاری روسی فرمز سے بات چیت کر رہا ہے۔

تاہم طاہر عباس کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے موجودہ ایل این جی درآمدی انفرااسٹرکچر میں یومیہ محض 200 سے 300 ملین مکعب فٹ (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس کے لیے گنجائش موجود ہے‘۔

پاکستان میں طویل مدت سے زیر التوا 2 ایل این جی ٹرمینلز (قطر کے ’اِنرگیس ایل این جی‘ اور مٹسوبشی کے ’تبیر ایل این جی‘) کی تعمیر میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے، دونوں ٹرمینلز میں سے ہر ایک کی صلاحیت 750 سے ایک ہزار ایم ایم سی ایف ڈی ہوگی۔

پہلے سے آپریشنل 2 ٹرمینلز ’اینگرو ایلینجی (690 ایم ایم سی ایف ڈی)‘ اور ’گیس پورٹ ایل این جی (750 ایم ایم سی ایف ڈی)‘ کی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ مزید 2 ٹرمینلز کے اضافے سے پاکستان کی ایل این جی کی درآمدی صلاحیت دوگنی سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔

دونوں ٹرمینلز کے اسپانسرز کے پُرزور احتجاج کے باوجود سرکاری گیس یوٹیلٹی کمپنیوں کی جانب سے ان دونوں کے لیے 300 ایم ایم سی ایف ڈی پائپ لائن کی گنجائش فراہم کرنے پر بہت معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔

جہاں تک وسط ایشیائی انفرااسٹرکچر (یعنی پائپ لائنز) کے ذریعے گیس کی درآمد کا تعلق ہے جس کا حوالہ روسی نائب وزیراعظم نے دیا تھا، تو تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس تجویز پر صرف اس وقت عمل کیا جاسکتا ہے جب پاکستان، کراچی سے لاہور تک طویل عرصے سے زیر التوا 683 میل پائپ لائن کی روس کی مدد سے تعمیر میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ ’حکومت کی جانب سے روس کو مجوزہ پائپ لائن کے حصص کے حوالے سے ایک پُرکشش پیشکش کی جانی چاہیے اور روس سے گیس کی مناسب مقدار میں درآمدات کے لیے اس کی تعمیر کو تیز کرنا چاہیے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں