سندھ: سانگھڑ میں ہندو خاتون کے لرزہ خیز قتل کی تحقیقات کیلئے خصوصی ٹیم تشکیل

لڑکیوں کا ایک کزن اور مبینہ قاتل محمد اسلم روپوش ہوگیا ہے—فائل فوٹو:شٹر اسٹاک
لڑکیوں کا ایک کزن اور مبینہ قاتل محمد اسلم روپوش ہوگیا ہے—فائل فوٹو:شٹر اسٹاک

پولیس کی جانب سے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ایک ہندو خاتون کے لرزہ خیز قتل کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی۔

شہید بینظیر آباد کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) محمد یونس چانڈیو نے بتایا کہ سانگھڑ کی تعلقہ سنجھورو میں سرسوں کے کھیت سے 40 سالہ بیوہ شریمتی دیا بھیل کی لاش برآمد ہوئی، جنہیں بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) 28 دسبر کو درج کر لی گئی تھی۔

ڈی آئی جی محمد یونس چانڈیو نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) بشیر احمد بروہی کی سربراہی میں قتل کی تحقیقات کے لیے پولیس کی خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیم کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مجرموں کی گرفتاری کے لیے مخلصانہ کوشش کریں اور نتیجہ خیز پیش رفت پر مبنی رپورٹ 7 روز میں ان کے دفتر میں جمع کریں۔

انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ سراغ رساں کتے بھی تحقیقات کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، وہ ہمیں متاثرہ خاتون کے قریبی رشتے دار کے گھر تک لے گئے لیکن ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حتمی نتیجے تک پہنچنے سے پہلے ہر ممکنہ زاویے سے تحقیقات کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، اب تک 30 افراد سے پوچھ گچھ کی جا چکی ہے لیکن اب تک باضابطہ طور پر کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ متعدد افراد کے ڈی این اے کے نمونے بھی تفتیش کے مقصد سے حاصل کیے گئے ہیں۔

محمد یونس چانڈیو کا کہنا تھا کہ میں نے ذاتی طور پر جائے وقوع کا دورہ کیا تھا اور مقتولہ کے ورثا اور گاؤں کے بزرگوں سے ملاقات کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ مقتولہ دور دراز گاؤں ڈپیوٹی میں رہتی تھی اور 5 بچوں کی ماں تھی۔

ان کا کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ متاثرہ خاتون کو اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا، انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ یہ قتل ذاتی دشمنی کی وجہ سے کیا جاسکتا ہے یا اس میں کچھ نفسیاتی مریض بھی شامل ہوسکتے ہیں۔

ایف آئی آر

قبل ازیں، مقتولہ کے صاحبزادے نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا تھا کہ یہ واقعہ سانگھڑ سے تقریباً 20 کلومیٹر دور سنجھورو ٹاؤن کے قریب ڈیپوٹی گاؤں میں پیش آیا۔

پولیس نے سومار چاند کی مدعیت پر فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) سنجھورو پولیس تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (قتل عمد) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 6 (دہشت گردی) اور دفعہ 7 (دہشت گردی کرنے کی سزا) کے تحت درج کی ہے۔

شکایت کنندہ نے ایف آئی آر میں بتایا کہ وہ علاقے میں ایک زمیندار کے پاس گنا کاٹنے کا کام کرتا ہے، جس دن قتل ہوا وہ کھیتوں میں تھا جبکہ اس کی ماں اور چھوٹی بہن گھاس کاٹنے اور اکٹھا کرنے گئی ہوئی تھیں۔

ایف آئی آر کے مطابق جب چاند گھر پہنچا تو اس کی بہن رو رہی تھی لیکن اس کی والدہ کا کوئی پتا نہیں تھی۔

مزید بتایا گیا کہ اس نے پوچھنے پر بتایا کہ ان لوگوں کو ان کے رشتے دار ملے تھے، دیا نے ان سے گھاس اٹھانے کے لیے مدد مانگی، واپس آتے وقت دیا گھاس کا ایک اور ڈھیر لینے کھیت میں گئی لیکن واپس نہیں آئی۔

ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ جب چاند کھیتوں میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ اپنی والدہ کو تلاش کرنے گئے تو انہیں واٹر کورس کے قریب ان کی لاش ملی۔

مزید بتایا گیا کہ دیا بھیل کا سر کسی تیز دھار آلے سے کاٹا گیا، ان کے جسم سے کھال اتاری گئی اور نازک اعضا کاٹے گئے، جمع ہونے والے رشتے داروں نے پولیس کو اطلاع دی اور لاش پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔

اظہار مذمت

اس واقعے نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کو جنم دیا۔

وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق اور رکن صوبائی اسمبلی سریندر ولاسائی نے کہا کہ شریمتی دیا بھیل کے لزرہ خیز قتل نے ہر شخص کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر حکومتِ سندھ ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

سریندر ولاسائی نے کہا کہ شہید بے نظیر آباد کے ڈی آئی جی یونس چانڈیو خود تحقیقات کی نگرانی کررہے ہیں، امید ہے کہ مجرموں کو جلد ہی پکڑا جائے گا اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا، یہ ایک غیر انسانی اور وحشیانہ فعل ہے۔

دوسری جانب، پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری نے بھی واقعے کی مذمت کی اور گاؤں کا دورہ کرکے پولیس حکام سے ملاقات کی۔

سندھ کے وزیر برائے اقلیتی امور گیان چند ایسرانی نے بھی واقعے کا نوٹس لیا اور اسے وحشیانہ فعل قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے شہید بے نظیر آباد کے ڈی آئی جی اور سانگھڑ کے ایس ایس پی سے رپورٹ طلب کر لی، انہوں نے کہا کہ مجرموں کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔

دوسری جانب، عورت مارچ کراچی چیپٹر نے کہا کہ اس واقعے نے پاکستان میں خواتین اور اقلتیوں کے خلاف مظالم، امتیازی سلوک اور تشدد کی لمبی فہرست میں اضافہ کیا ہے۔

تنظیم نے کہا کہ ہم حکومت سندھ سے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں، اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے اور اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس کیس کا ماورائے عدالت تصفیہ یا طویل تاخیر کا شکار نہ ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں