کراچی: نوعمر گھریلو ملازم کو قتل کرنے کے الزام میں خاتون گرفتار

اپ ڈیٹ 10 فروری 2023
فوٹو: امتیاز دھارانی
فوٹو: امتیاز دھارانی
چھاچھرو میں معصوم رفیق کے قتل کے خلاف علاقہ مکین احتجاج کر رہے ہیں—فوٹو: امتیاز دھارانی
چھاچھرو میں معصوم رفیق کے قتل کے خلاف علاقہ مکین احتجاج کر رہے ہیں—فوٹو: امتیاز دھارانی

کراچی پولیس نے گلشن اقبال میں نوعمر گھریلو ملازم کو قتل کرنے اور اس کے بھائی کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں بااثر خاتون کو گرفتار کرلیا۔

ایس ایس پی شرقی زبیر نظیر شیخ نے کہا کہ تھر سے تعلق رکھنے والے 11 سالہ مقتول رفیق نہڑیو کے والد کی شکایت پر پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کرتے ہوئے گلشن اقبال کے بلاک 13 ڈی سے ملزمہ خاتون شیرین اسد کو گرفتار کرلیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ معصوم رفیق نہڑیو گلشن اقبال بلاک 13 ڈی میں گھریلو ملازم تھا جو 8 فروری کو جاں بحق ہوگیا تھا۔

ایس ایس پی نے کہا کہ پولیس نے بااثر خاتون شیرین اسد کے خلاف قتل اور دیگر مقدمات درج کرکے گرفتار کرلیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق شکایت کنندہ منٹھار علی نہڑیو نے کہا کہ وہ تھر کی تحصیل چھاچھرو کے کیتار گوٹھ کے رہائشی ہیں اور ان کے تین بیٹے 16 سالہ رضا، 13 سالہ رشید اور 11 سالہ رفیق تقریبا گزشتہ 13 ماہ سے 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر شیرین اسد کے گھر ملازمت کرتے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 8 فروری کو تقریباً دوپہر دو بجے ان کے چچا زاد بھائی نے انہیں اطلاع دی کی ان کا بیٹا رفیق کراچی میں جاں بحق ہوگیا ہے۔

بعدازاں انہوں نے اپنے بڑے بھائی مٹھا خان سے رابطہ کیا جس نے بتایا کہ شیرین اسد نے انہیں بتایا تھا کہ 15 روز قبل رفیق رکشا سے گر کر زخمی ہوگیا تھا، اور اسی رات (8 فروری) کو رفیق گھر کے واش روم میں گر گیا۔

والد نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہیں بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر رفیق کو گلشن اقبال میں زین ہسپتال منتقل کیا گیا اور بعدازاں انہیں ڈاؤ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں مردہ قرار دیا گیا۔

والد نے کہا کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی اور دیگر رشتہ داروں سے کہا کہ بیٹے کی لاش تھر لائی جائے۔

تاہم جب ان کے بھائی مٹھا خان، محمد سومر اور دیگر رشتہ دار گلشن پولیس اسٹیشن پہنچے تو پولیس نے بچے کا پوسٹ مارٹم کرانے پر زور دیا جس کے بعد لاش عباسی شہید ہسپتال منتقل کی گئی لیکن وہاں انہوں نے ڈاکٹروں کو لکھ کر دیا کہ وہ پوسٹ مارٹم نہیں کرانا چاہتے اور یوں لاش تھر منتقل کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ تدفین کے بعد اپنے بیٹوں رزاق اور رشید سے دریافت کیا کہ ان کے بھائی کو کیا ہوا تھا جس پر رزاق نے جواب دیا کہ بااثر خاتون شیرین اسد انہیں اور رفیق کو تشدد کا نشانہ بناتی تھیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ خاتون مقتول رفیق کو گرم چمٹوں سے تشدد کا نشانہ بنایا کرتی تھیں اور وہ رکشا سے نہیں گرا تھا۔

ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شیرین اسد انہیں تشدد کا نشانہ بناتی تھیں جبکہ رزاق کو تشدد کرکے پلاس سے ان کے ناخن نکال لیے تھے اور پھر اس کے سر پر پلاس مارا جس کے نتیجے میں اس کی موت ہوگئی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ معصوم رزاق گھر کے واش روم میں بھی نہیں گرا تھا۔

شکایت کنندہ والد نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے کا جسم بھی دیکھا ہے جس پر تشدد کے واضح نشان تھے، لہٰذا میری درخواست ہے کہ شیرین اسد نے میرے بیٹے کو قتل کیا ہے اور دوسرے بیٹے کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔

ادھر وزیراعلیٰ سندھ کے معاونِ خصوصی برائے انسانی حقوق سریندر ولاسائی نے گھریلو ملازم کے قتل کیس میں پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

سریندر ولاسائی نے کہا کہ یقین ہے کہ متعلقہ ادارے مقتول کے اہلخانہ کو انصاف کی فراہمی کے لیے ذمہ دارانہ کردار نبھائیں گے، ملزمان کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں، تھرپارکر کے غریب محنت کش خاندان سے ناانصافی ہونے نہیں دیں گے۔

تھر سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی عبدالرزاق راہموں نے کہا کہ بچوں پر تشدد کرنے والی سفاک خاتون شیرین اسد اور اس کے اہل خانہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

عبدالرزاق راہمون نے کہا کہ آئی جی سندھ اور گلشن اقبال تھانے کے ایس ایچ او نے بتایا کہ خاتون کو رات گئے گرفتار کیا گیا، اور پورے معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک متاثرہ غریب مزدوروں کو انصاف نہیں ملتا، ساتھ کھڑے ہوں گے کیونکہ معصوم بچوں پر وحشیانہ تشدد نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا، مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں