بلوچستان میں 3 شہریوں کا قتل، صوبائی وزیرعبدالرحمٰن کھیتران گرفتار

22 فروری 2023
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ واقعے میں ملوث صوبائی وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے — فوٹو: ٹوئٹر
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ واقعے میں ملوث صوبائی وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے — فوٹو: ٹوئٹر

بلوچستان کے ضلع بارکھان میں تین شہریوں کے قتل کے الزام میں صوبائی وزیر مواصلات عبدالرحمٰن کھیتران کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔

بلوچستان پولیس کے ترجمان نے کہا کہ سردار عبد الرحمٰن کھیتران کو بارکھان میں 3 افراد کے قتل کے شبہے میں حراست میں لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم نے صوبائی وزیر سے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ مغویوں کی بازیابی کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں اور قتل کے واقعے کے حوالے سے مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔

گزشتہ روز لاشوں کی برآمدگی کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی حکومت نے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا جب کہ صوبائی وزیر عبدالرحمٰن کھیتران نے خود پر عائد الزامات مسترد کردیے تھے۔

ورثا کا احتجاج، وزیر اعظم کی آمد تک تدفین نہ کرنے کا اعلان

بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے میں ایک کنویں سے گولیوں سے چھلنی 3 لاشوں کی برآمدگی کے خلاف ورثا کا کوئٹہ میں میتیں رکھ کر ریڈ زون کے باہر احتجاجی دھرنا دیا۔

گزشتہ روز بارکھان میں قتل ہونے والے افراد کے ورثا نے واقعے کے خلاف کوئٹہ میں احتجاجی دھرنا دے دیا تھا جو 12 گھنٹے سے زائد وقت گزرنے کے باوجود اب تک جاری ہے، مظاہرین میتیں رکھ کر ریڈ زون کے باہر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ واقعے میں ملوث صوبائی وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے، آل پاکستان مری اتحاد کے جنرل سیکریٹری جہانگیر مری نے کہا کہ ہم یہاں دھرنا دیے بیٹھے ہوئے ہیں، ہمیں یہاں آنے سے روکا گیا، ہم وزیراعظم پاکستان کے علاوہ کسی شخص سے کوئی بات نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پانچ مطالبات ہیں، ہمارا سب سے پہلا مطالبہ متاثرہ خاندان کے دیگر مغوی افراد کو بازیاب کرایا جائے، دوسرا مطالبہ صوبائی وزیر عبد الرحمٰن کیتھران کو گرفتار کیا جائے، انہیں ڈی سیٹ کیا، میتوں کا پوسٹ مارٹم کیا جائے، ایف آئی آر درج کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر اعظم نہیں آئیں گے، اس وقت تک میتوں کی تدفین نہیں کی جائے گی۔

جہانگیر مری نے کہا کہ مقتولین پر تیزاب ڈالا گیا ہے، لاشوں سے اس قدر تعفن اٹھ رہا ہے کہ یہاں بیٹھنا محال ہو رہا ہے، وزیر اعظم یہاں پانچ منٹ بھی نہیں بیٹھ سکتے لیکن ہم یہاں اس وقت تک بیٹھیں گے جب تک کہ 5 مغوی بچے بازیاب کروا کر ہم تک پہنچا نہیں دیے جاتے۔

ادھر مقتولہ کے شوہر خان محمد مری نے کہا کہ میری اور میرے بچوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے، مجھے اور بچوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

محمد مری نے کہا کہ مجھے تحفظ فراہم کیا جائے تو میں اپنے شہدا کی لاشوں کے پاس آسکوں۔

صوبائی وزیر داخلہ کا مغوی افراد کو 24 گھنٹے کے اندر بازیاب کرانے کا حکم

وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو نے مری قبائل کے مغوی افراد کو 24 گھنٹے کے اندر بازیاب کرانے کے احکامات جاری کردیے۔

صوبائی وزیر داخلہ نے بچوں کی بازیابی کے لیے ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس، جوائنٹ ڈائریکٹر آئی بی کوئٹہ، ہیڈکوارٹرز آئی ایس آئی، ایم آئی کو احکامات جاری کیے۔

صوبائی وزیر داخلہ کی جانب سے جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے، مری قبائل کے بچوں کا اب تک بازیاب نہ ہونا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر برا اثر ہے۔

دوسری جانب بارکھان واقعے پر مشاورت کے لیے قبائلی جرگہ آج طلب کرلیا گیا، خان آف قلات کے بھائی سینیٹر پرنس آغا عمر احمد زئی نے قبائلی سربراہان کا اجلاس ایوان قلات کوئٹہ میں طلب کیا ہے۔

ترجمان ایوان قلات کوئٹہ نے کہا کہ اجلاس میں بلوچ، پشتون قبائل کے سربراہان شرکت کریں گے، قبائلی جرگہ میں سانحہ بارکھان سے متعلق قبائلی رسم و رواج کے تحت مشاورت ہوگی۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے واقعہ کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران کی نجی جیل میں غریب بلوچ خاتون اور اس کے بچوں کی غیر قانونی قید، جسمانی تشدد اور قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے مطالبہ کیا کہ جنگل کے اس قانون کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہیے۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ تمام محب وطن پاکستانی، ہر قسم کی تفریق سے وابستگی سے بالاتر ہو کر ظلم کے اس نظام کے خلاف نکلیں۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی، استحصال، مافیا کا تسلط، غلامی اور غربت نامنظور، سب باضمیر، محب وطن کوئٹہ دھرنا کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔

پولیس کی جانب سے گزشتہ روز جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ شب بارکھان سے 7 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ایک کنویں سے بوری بند تین لاشیں برآمد ہوئیں جن میں ایک لاش خاتون اور دو لاشیں مردوں کی ہیں، مقتول خاتون کی شناخت 45 سالہ گران ناز جب کہ قتل ہونے والے مردوں کی شناخت محمد نوار اور عبدالقادر کے ناموں سے ہوئی جن کی عمریں 15 سے 20 سال کے درمیان ہیں، قتل ہونے والے شہری ماں اور بیٹے ہیں۔

پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ لاشیں 20 فروری کو رات 8 بجے ملیں اور بارکھان پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر کو کنویں سے لاشیں ملنے کے بارے میں آگاہ کیا گیا، انہیں جیسے اس واقعے کے بارے میں بتایا تو وہ فوراً پولیس پارٹی کے ساتھ جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔

بیان میں کہا گیا کہ لاشیں نویں سے نکال کر سول ہسپتال بارکھان منتقل کر دی گئیں، جہاں انہیں عبدالقیوم بجرانی مری نے شناخت کر لیا جس سے پولیس نے انہیں ان کا وارث قرار دیا ہے، قانونی چارہ جوئی کے بعد لاشیں ان کے حوالے کردی گئیں۔

پولیس کے بیان کے مطابق خاتون کے شوہر اور بچوں کے والد خان محمد مری کی مدعیت میں 18 جنوری 2023 کو مقتولین سمیت خاندان کے دیگر افراد کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا گیا تھا۔

مقدمے میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے ترجمان اور صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمٰن کھیتران، جو کوہلو بارکھان سے منتخب نمائندے ہیں، کو نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے کے مدعی محمد مری نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو ٹیلی فونک گفتگو کے دوران بتایا کہ 2019 میں سردار عبدالرحمٰن کھیتران اور ان کے بیٹے سردار انعام کھیتران کے درمیان تنازع میں گواہی نہ دینے پر اس کی بیوی اور جواں سالہ بیٹی سمیت 7 بچوں کو سردار نے نجی جیل میں قید کر لیا تھا۔

تاہم خان محمد مری کی بیوی کی رہائی سے متعلق ویڈیو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر منظر عام پر آئی تھی جس کے بعد ان کی لاشیں کوہلو کے علاقے بارکھان کے دور درزا علاقے میں کنویں سے برآمد ہوئی ہیں جنہیں تشدد کر کے قتل کیا گیا ہے۔

محمد مری خان کا مزید بتانا تھا کہ ان کے مزید 5 بچے جن میں عبدالمجید، فرزانہ عبدالستار، عبدالغفار اور محمد عمران جن کی عمریں 8 سے 20 سال کے درمیان ہیں زیر حراست ہیں۔

ڈان ڈاٹ کام نے ویڈیو کی تصدیق کی جس میں موجود خاتون خان محمد کی بیوی اور اس واقعے میں قتل کیے گئے تین افراد میں سے ایک ہے۔

ویڈیو میں خاتون کو قرآن ہاتھ میں پکڑ کر کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں، یہ قرآن سب سے بڑھ کر ہے، سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے مجھے جیل میں قیدی بنا کر رکھا، وہ روز میری بیٹی کا جنسی استحصال کرتا ہے اور میرے بیٹوں کو بھی قید کر رکھا ہے، کوئی ہمیں رہائی دلائے۔

واقعے کی ایف آئی آر اب تک درج نہیں کی گئی۔

دوسری جانب سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے الزام کو مسترد کرتے ہوئے معاملے کو ان کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے پروپیگنڈا قرار دیا تھا جس میں ان کے بیٹے سردار انعام کھیتران شامل ہیں اور بیٹے ہی نے ویڈیو بنا کر اسے وائرل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مخالفین کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں