کیو ایس ورلڈ سبجیکٹ رینکنگ میں صرف 13 پاکستانی جامعات جگہ بنانے میں کامیاب

24 مارچ 2023
رپورٹ کے مطابق صرف لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کو قانونی تعلیم کے مضمون میں 301-350 کے درمیان رکھا گیا ہے— فائل فوٹو: ایچ ای سی
رپورٹ کے مطابق صرف لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کو قانونی تعلیم کے مضمون میں 301-350 کے درمیان رکھا گیا ہے— فائل فوٹو: ایچ ای سی

پاکستان کی صرف 13 سرکاری اور نجی جامعات کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی سبجیکٹ رینکنگ 2023 میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ برائے سبجیکٹ 2023 میں کل 54 مضامین کا احاطہ کیا گیا اور انہیں پانچ وسیع مضامین کے شعبوں میں تقسیم کیا گیا۔

یونیورسٹی رینکنگ ہر سال مرتب کی جاتی ہے تاکہ طلبا کو کسی خاص مضمون میں معروف یونیورسٹیوں کی پہچان کرنے میں مدد ملے۔

جامعات کی رینکنگ کے لیے محققین اور ماہرینِ تعلیم کے بڑے عالمی سروے کے نتائج کے ساتھ تحقیقی حوالہ جات کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس سال کی درجہ بندی میں تین نئے مضامین شامل ہیں جن میں ڈیٹا سائنس، آرٹ کی تاریخ، اور مارکیٹنگ اور ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔

سبجیکٹ 2024 کے لحاظ سے کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں عمان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران، قطر اور اردن سمیت عرب ممالک کے اداروں کے زیر اہتمام 10 سب سے بہتر پروگراموں میں سے چھ کو شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکی ادارے 32 مضامین میں آگے ہیں جہاں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اداروں میں ہارورڈ یونیورسٹی بھی شامل ہے جو 14 مضامین میں پہلے نمبر پر ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے اناٹومی، فزیالوجی، اینتھروپولوجی اور انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر کو ٹاپ 15 مضامین میں سے چار پر غلبہ حاصل ہے جبکہ یونیورسٹی آف کیمبرج نے آثار قدیمہ اور جدید زبانوں پر فہرست میں مقام حاصل کیا۔

ایچھ انڈیکس نامی ادارے نے آسٹریلیا کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ اثرانداز تحقیقی مقامات میں چوتھے نمبر پر رکھا ہے۔

پاکستان میں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو 160، کامسیٹ یونیورسٹی اسلام آباد کو 267، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کو 279، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد 348ویں نمبر پر، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز 401-450 کے درمیان اور پنجاب یونیورسٹی کو 501-530 کی رینکنگ میں شامل کیا گیا ہے۔

کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن سسٹمز کے مضمون میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو 148، کامسیٹ یونیورسٹی کو 251 سے 300 کے درمیان، لاہور مینجمنٹ سائنس، نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کو 351 سے 400 کے درمیان، ، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کو 351-400 کے درمیان جبکہ پنجاب یونیورسٹی کو 451-500 کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کراچی کو لائف سائنسز اینڈ میڈیسن کے مضمون میں 391 جبکہ نیچرل سائنسز کے مضمون میں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کو 346، کامسیٹ یونیورسٹی اور نسٹ کو 451 سے 500 کے درمیان رکھا گیا ہے اور ڈاؤ یونیورسٹی کو طب کے مضمون میں 601 سے 650 نمبر پر شمار کیا گیا ہے۔

سوشل سائنسز اور مینجمنٹ کے مضمون میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کو 322 اور نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ ایمرجنگ سائنسز کو 451-500 کے درمیان رکھا گیا ہے جبکہ اکاؤنٹنگ اور فنانس کے مضمون میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کو 151 سے 200 اور کاسمیٹس یونیورسٹی کو 301 سے 330 کے درمیان رکھا گیا ہے۔

بزنس اینڈ مینجمنٹ اسٹڈیز میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کو 151-200 کے درمیان، نسٹ یونیورسٹی کو 251-300 کے درمیان، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کو 301-350، کاسمیٹ یونیورسٹی کو 401-450، پنجاب یونیورسٹی کو 401-450 کے درمیان، قائد اعظم یونیورسٹی کو 451-500 کے درمیان اور اقرا یونیورسٹی کو 551-580 کے درمیان رکھا گیا ہے۔

اکنامکس اور اکانومیٹرکس کے سبجیکٹ میں لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کو 201-250 کے درمیان، کاسمیٹ یونیورسٹی کو 301-350 کے درمیان، قائداعظم یونیورسٹی کو 401-450 کے درمیان، پنجاب یونیورسٹی کو 451-500 کے درمیان، آئی بی اے کو 501-530 کے درمیان اور یونیورسٹی آف دی کراچی 501-530 کے درمیان رکھا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق صرف لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کو قانونی تعلیم کے مضمون میں 301-350 کے درمیان رکھا گیا ہے جبکہ قائداعظم یونیورسٹی کو شماریات اور آپریشنل ریسرچ کے مضمون میں 151-200 کے درمیان رینک کیا گیا ہے۔

تاہم پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی آرٹس اینڈ ہیومینٹیز، مارکیٹنگ، سوشیالوجی، اسپورٹس سے متعلقہ مضامین، بشریات، کمیونیکیشن اینڈ میڈیا اسٹڈیز، ڈیولپمنٹ اسٹڈیز، ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ، ہاسپیٹلٹی اینڈ لیزر مینجمنٹ، لائبریری اور انفارمیشن، مینجمنٹ، پولیٹکس، ڈیٹا سائنس، ہسٹری آف آرٹ اینڈ سوشل پالیسی اینڈ ایڈمنسٹریشن سمیت متعدد مضامین کی درجہ بندی میں شامل نہ ہو سکی۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ جامعات اس درجہ بندی میں سامنے آئیں جنہوں نے کیو ایس ورلڈ رینکنگ کے ساتھ ڈیٹا شیئر کیا۔

انہوں نے کہا کہ رینکنگ کو بہتر بنانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں لیکن انہیں سرکاری یونیورسٹیوں کو معیار میں مضبوط بنانا ہو گا۔

ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ 20 برسوں کے دوران یونیورسٹیوں میں سرمایہ کاری کی ہے اور پاکستان کی 30 کے قریب جامعات کو درجہ بندی میں شامل ہونا چاہیے تھا۔

ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ کمیشن یونیورسٹیوں کی انتظامیا کو تربیت فراہم کر رہا ہے کہ کس طرح اپنا ڈیٹا رینکنگ ایجنسیوں کو جمع کرایا جائے اور آنے والے دنوں میں صورتحال مزید بہتر ہو جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے یونیورسٹیوں میں سرمایہ کاری کو بھی بڑھانا ہو گا۔

تبصرے (0) بند ہیں