اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 39 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا اضافہ

21 اپريل 2023
رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک میں چین سے 1.3 ارب ڈالر کی آمد سے بہتری نظر آرہی ہے—فائل/فوٹو: اے ایف پی
رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک میں چین سے 1.3 ارب ڈالر کی آمد سے بہتری نظر آرہی ہے—فائل/فوٹو: اے ایف پی

اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 14 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے میں 39 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں چین سے تین اقساط میں 1.3 ارب ڈالر کی آمد سے اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں بہتری نظر آرہی ہے۔

پاکستان کمرشل اور نان کمرشل قرضوں کے لیے بڑے پیمانے پر چین پر انحصار کر رہا ہے اور اس وقت سب سے زیادہ بیجنگ کا قرض 30 ارب ڈالر ہے۔

چین سب سے بڑی شراکت دار کی حیثیت سے پاکستان میں 30 فیصد سے زائد براہ راست بیرونی سرمایہ کار کر رہا ہے اور مالی سال 2023 کے 9 ماہ میں یہ سرمایہ پاکستان میں آئی تاہم تجارت کا توازن چین کی طرف زیادہ ہے۔

اسٹیٹ بینک نے رپورٹ کیا کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 4.432 ارب ڈالر ہوگئے ہیں، جس میں رواں ہفتے کمرشل بینکوں کے 30 کروڑ ڈالر قرض بھی شامل ہے۔

رواں مالی سال میں زرمبادلہ کے ذخائر کی یہ سطح سب سے زیادہ ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 17 مارچ کو 4.6 ارب ڈالر ہوگئے تھے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود تاحال دونوں ممالک نے فنڈز کا اجرا نہیں کیا۔

پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں انتہائی کمی آئی تھی اور رواں مالی سال کے دوران ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں بھی بدترین گراوٹ ہوئی اور ڈالر 105 روپے مہنگا ہوگیا، جس کی وجہ سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا۔

پاکستان کو مہنگے ڈالر کے ساتھ درآمدات کرنا پڑی جس کی وجہ سے مارچ میں مہنگائی کی سطح 35 فیصد تک پہنچ گئی تھی، افراط زر میں ریکارڈ اضافے کے بعد اسٹیٹ بینک کو شرح سود 21 فیصد کرنا پڑا، جس سے تجارتی اور صنعتوں سرگرمیوں پر فرق پڑا۔

دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے پیش گوئی کی ہے کہ مالی سال 2023 کے دوران معاشی نمو 0.5 فیصد رہے گا اور اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافہ کردیں، اس دوران بدترین معاشی حالات کی وجہ سے لاکھوں پاکستانی روزگار سے محروم ہوئے۔

ادھر وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے نویں جائزے کے لیے تمام شرائط مکمل کرلی ہیں تاہم 1.1 ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کے لیے اب تک آئی ایم ایف سے عملے کی سطح پر معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے۔

حکومت کی خواہش ہے کہ جون کے اختتام تک 6 ارب ڈالر کا قرض حاصل کیا جائے جبکہ 2 ارب ڈالر چین کی جانب سے رول اوور ہونے کی توقع ہے۔

ماہرین معیشت اور تجزیہ کار حکومت کو خبردار کرتے آئے ہیں کہ معاشی عدم استحکام کا مسئلہ فوری حل کریں، جو سابق وزیراعظم عمران خان کی بے دخلی کے بعد مزید خراب ہوگیا ہے۔

حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے بعد درآمدات پر سختی کی لیکن 9 ماہ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجارتی خسارہ اس وقت بھی 20 ارب ڈالر ہے اور مالی سال 2023 کے پہلے 9 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 74 فیصد گرگیا لیکن ملک کو سال کے اختتام پر خسارے پر قابو پانے کے لیے 6 ارب ڈالر درکا ہیں۔

اس دوران کمرشل بینکوں کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 5.5 ارب ڈالر ہوا اور مجموعی تعداد 9.96 ارب ڈالر ہوگئی، جس کے بعد ملک کے زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 17 مارچ کو 10.1 ارب ڈالر پر پہنچ گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں