منتخب حکومت کی تشکیل تک نگران سیٹ اپ کام کرسکتا ہے، قانونی ماہرین

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2023
پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومت کے خلاف خط لکھا تھا — فائل/فوٹو: ٹوئٹر/ ڈی جی آئی پی آر
پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومت کے خلاف خط لکھا تھا — فائل/فوٹو: ٹوئٹر/ ڈی جی آئی پی آر

قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ منتخب حکومت کی تشکیل تک نگران سیٹ اَپ کام کرسکتا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ پر زور دیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومت کے 90 روز مکمل ہوگئے لہٰذا انہیں برطرف کردیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وکلا کی رائے ہے کہ نگران حکومت صرف اس وقت گھر جاسکتی ہے جب اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردیا جائے، اس حوالے سے کسی خاص مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے لہٰذا معاملات حکومت کے بغیر نہیں چھوڑے جاسکتے ہیں۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس نے کئی مواقع پر فیصلہ دیا ہے کہ ایک نگران سیٹ اپ مستقل حکومت کے قیام تک کام جاری رکھ سکتا ہے۔

خواجہ احمد طارق رحیم اور فیڈریشن آف پاکستان کے 1991 کے مشہور مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے قرار دیا تھا کہ ایک نگران حکومت کو مستقل حکومت کو کابینہ تشکیل دینے تک مکمل ذمہ داری کے ساتھ ذمہ داری نبھانی چاہیے۔

نگران وزیر اعظم سے متعلق کیس میں عدالت عالیہ کے بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ نگران وزیر اعظم کی مدت انتخابات کے بعد نئی اسمبلی کی جانب سے مستقل وزیراعظم کے چناؤ تک جاری رہے گی۔

لاہور ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی توثیق 1992 میں سپریم کورٹ کے 12 رکنی بینچ نے کی تھی۔

ڈان کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے 2013 میں قرار دیا تھا کہ نگران وزیراعظم کو عبوری دورانیے میں ریاستی امور چلانے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے جو منتخب حکومت کی واپسی تک کام کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسی لیے نگران حکومت موجودہ عبوری مدت اور ایک منتخب حکومت کے آنے تک کام کرتی رہے گی۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے 90 کی دہائی کے کئی مقدمات کے علاوہ 2008 کے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تھا تو نگران سیٹ اَپ کو منتخب حکومت کے آنے تک کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کی جانب سے کام جاری رکھنا آئین کی کسی شق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

ایڈووکیٹ ملک اویس خالد نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 254 اختیار دیتا ہے کہ اگر کوئی کام آئین میں طے کردہ مقررہ وقت کے اندر مکمل نہ ہو پائے تو مذکورہ قانون ناقابل عمل نہیں ہوگا کیونکہ اس طرح کی وجوہات موجود ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتوں کو آئینی مدت کے لیے دی گئی مہلت کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور انہیں عام انتخابات تک کام کرنے کا اختیار ہوگا۔

ایڈووکیٹ خرم چغتائی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو دو صوبوں کی نگران حکومت کے تسلسل سے متعلق کسی فیصلے کی ضرورت پڑی تو 1992 کے خواجہ احمد طارق رحیم کیس کی روشنی میں 12 رکنی سے کم لارجز بینج تشکیل نہیں دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت منتخب حکومت کی تشکیل تک جاری رہ سکتی ہے تاہم 18ویں ترمیم کے بعد آئینی شق کی نئی تشریح کی ضرورت ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ترامیم اور قانون سازی کے بعد نگران حکومت کو ایک مخصوص دورانیہ دیا گیا ہے۔

ڈان کو ایک لا افسر نے بتایا کہ اس کے علاوہ بھی متعد مثالیں ہیں جیسا کہ 2010 میں بیلجیئم میں معلق پارلیمنٹ کی وجہ سے نگران حکومت کا دورانیہ 500 روز کا ہوگیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 1996 میں بھارت میں قانونی اقدامات کے ذریعے نئی حکومت آنے تک نگران حکومت کی توسیع کی گئی تھی۔

لا افسر نے بتایا کہ 2010 میں آسٹریلیا میں نگران حکومت کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا تھا، واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے نگران حکومت کی مدت میں نئی حکومت تک توسیع کردی گئی تھی لیکن اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ منظوری دے دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ 2019 میں تھائی لینڈ میں نگران حکومت نے بغیر کسی توسیع کے مقررہ مدت کے بعد بھی کام جاری رکھا تھا۔

اس سے قبل پی ٹی آئی کے نائب صدر فواد چوہدری نے صدر مملکت عارف علوی کو خط کے ذریعے زور دیا تھا کہ دونوں صوبوں کی عبوری حکومتیں 22 اپریل کو 90 روز کا اپنا آئینی مدت پورا کرچکی ہیں۔

صدر مملکت سے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے اس معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا کہیں کیونکہ آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے نائب صدر کا خط صدر مملکت نے وزیر اعظم شہباز شریف کو بھیج دیا تھا اور کہا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اٹھائے گئے نکات پر نظر ڈالیں۔

تبصرے (0) بند ہیں