ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت ساڑھے 11 بجے ہوگی

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2023
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیرقیادت بینچ صرف انتخابات میں تاخیر سے متعلق کیس کی سماعت کرے گا—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیرقیادت بینچ صرف انتخابات میں تاخیر سے متعلق کیس کی سماعت کرے گا—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے معاملے پر آج سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سماعت میں عدالت نے سیاسی جماعتوں سے کہا تھا کہ وہ 26 اپریل تک مذاکرات کریں اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد 27 اپریل (آج) تک جواب جمع کروائیں۔

سیاسی جماعتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اس معاملے پر جلد فیصلہ کریں کیونکہ انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ دی جاچکی ہے اور اس کی پابندی کا حکم تمام حکام پر لازم ہے۔

تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی مذاکرات نہ ہوسکے اور حکومت نے بھی عدالت کی جانب سے 4 اپریل کو جاری کردہ ہدایت کی تعمیل سے انکار کر دیا ہے، لہٰذا اب تمام نظریں عدالت کے اگلے اقدام پر جمی ہوئی ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم بینچ نمبر ایک کے تمام مقدمات کی سماعت گزشتہ روز منسوخ کردی گئی تھی جس نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا تھا، یہ فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طبیعت ناساز ہونے کی بنا پر کیا گیا تھا۔

نتیجتاً متعدد وکلا کی جانب سے یہ چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں کہ چیف جسٹس کی عدم دستیابی کے سبب انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے آج کیس کی سماعت ہوگی یا نہیں، یہ افواہیں اس وقت زور پکڑ گئیں جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود پر مشتمل بینچ نمبر 2 بھی سماعت کے لیے دستیاب نہیں ہے۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج ہیں اور اس کمیٹی کے رکن بھی ہیں جو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کے تحت بینچوں کی تشکیل اور ازخود نوٹس کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لے گی۔

اگرچہ حکومت نے حال ہی میں اس ایکٹ کی منظوری دی تھی لیکن سپریم کورٹ نے 13 اپریل کو ایک حکم کے ذریعے یہ قانون نافذ ہونے سے پہلے ہی معطل کر دیا تھا۔

آج کی سماعت کے حوالے سے افواہیں اس وقت دم توڑ گئیں جب گزشتہ روز ایک اعلامیے میں یہ واضح کیا گیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیرقیادت بینچ صرف انتخابات میں تاخیر سے متعلق کیس کی سماعت کرے گا اور بقیہ دن چیمبر میں مصروف رہےگا۔

دریں اثنا دیگر بینچ معمول کے معاملات کو دیکھیں گے، بینچ نمبر 2 جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل ہوگا، بینچ نمبر 3 میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس شاہد وحید شامل ہوں گے اور بینچ نمبر 4 جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل ہوگا۔

اسی طرح 2 خصوصی بینچ بھی اسلام آباد کی پرنسپل سیٹ پر موجود ہوں گے جن میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس مندوخیل شامل ہیں جبکہ دوسرا بینچ جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل ہوگا، دریں اثنا جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل دو رکنی بینچ کراچی رجسٹری میں بیٹھے گا۔

سپریم کورٹ میں 2 درخواستیں دائر

دوسری جانب گزشتہ روز سپریم کورٹ میں 2 درخواستیں جمع کرائی گئیں، ایک درخواست پی ٹی آئی کی جانب سے دائر کی گئی جس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگراں حکومتوں کے خلاف حکم امتناع کا مطالبہ کیا گیا، جبکہ دوسری درخواست میں شفاف انتخابات کے لیے نگراں وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا مطالبہ کیا۔

طارق اے رحیم اور امتیاز رشید صدیقی کی جانب سے دائر پی ٹی آئی کی درخواست میں عدالت سے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی اور نگران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان کو اپنے اختیارات کے استعمال سے روکنے کی استدعا کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کی نگرانی میں دونوں صوبوں کے روزمرہ کے امور کو منظم انداز میں سرانجام دیے جانے کے لیے مناسب احکامات جاری کیے جائیں۔

درخواست میں استدلال کیا گیا کہ آئین نگران حکومت کی مدت میں توسیع کا اختیار نہیں دیتا، اس لیے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ آئین کی پاسداری کو یقینی بنائے۔

درخواست میں الیکشن کمیشن کو فنڈز مختص کرنے سے انکار کرنے پر وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کے خلاف آرٹیکل 5 (ریاست سے وفاداری) اور آرٹیکل 6 (سنگین غداری) کے تحت کارروائی کی استدعا بھی کی گئی۔

ظہور مہدی فیصل کی جانب سے دائر کی گئی دوسری درخواست میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا، وزیر اعظم شہباز شریف، سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو متعصب/جانبدار قرار دیتے ہوئے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت عظمیٰ اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ایک نگران وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرے تاکہ مجوزہ تاریخ پر رینجرز اور مسلح افواج کی مدد کے بغیر 10 روز کے اندر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ موجودہ کیس فل کورٹ میں قابل سماعت ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے 21 ارب روپے کا مطالبہ اور انتخابی امور کے لیے فوج کی معاونت کا مقصد ریاست کو نقصان پہنچانا ہے۔

درخواست کا پس منظر

خیال رہے کہ 18 اپریل کو وزارت دفاع نے اپنی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ قومی اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ساتھ کرانے کی ہدایت جاری کی جائے۔

یہ استدعا ایک رپورٹ کے ساتھ منسلک درخواست کے ذریعے کی گئی تھی، جسے سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور دیگر محکموں کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات کی تعمیل میں پیش کیا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ ’مسلح افواج کے ارکان کو انتخابی ڈیوٹی کے لیے تیار کرنے کے لیے خاصہ وقت درکار ہے، اس لیے کہ فورس کا بڑا حصہ کافی عرصے سے آپریشنز میں مصروف ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ پنجاب اور سندھ میں سیکیورٹی کی صورتحال بالترتیب خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری آپریشنز کی کوششوں کے تناظر میں مستحکم ہے۔

درخواست میں وضاحت کی گئی تھی کہ اس لیے خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے فوجیوں کی کسی بھی قسم کی منتقلی کے نتیجے میں پنجاب اور سندھ میں سیکیورٹی کی صورتحال براہ راست متاثر ہوگی۔

پہلی سماعت

19 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزارت دفاع کی جانب سے ملک کی تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی درخواست پر سماعت کی اور درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے اگلے روز پیشی پر تمام سیاسی رہنماؤں کو طلب کر لیا تھا۔

عدالت کی جانب سے جاری حکمنامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کو اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ درخواست پر غور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ریلیف دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس معاملے کا فیصلہ عدالت کے حتمی فیصلے سے ہو چکا تھا اور اس طرح اس معاملے کو ناقابل سماعت قرار دے کر نمٹا دیا گیا۔

حکومت کی جانب سے انتخابات کے لیے فنڈز کے اجرا میں ہیش کردہ عذر کے حوالے سے عدالت نے کہا کہ یہ بیانیہ قابل قبول نہیں کہ وفاقی حکومت کے پاس ہمیشہ عام انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کے اخراجات کی اجازت دینے کے لیے ضروری آئینی اختیار اور طاقت نہیں ہوتی۔

حکم نامے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی 8 اکتوبر کی تاریخ بحال کرنے کی استدعا کو بھی ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا گیا تھا۔

انتخابات کے لیے فنڈز کے اجرا کا معاملہ

عدالت عظمیٰ نے حکومت کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 10 اپریل تک انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا حکم دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ حکومت کی جانب سے حکم کی تعمیل سے متعلق رپورٹ 11 اپریل کو فراہم کرے۔

تاہم حکومت نے معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوایا جس نے عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور فنڈز جاری کرنے سے انکار کردیا۔

گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے سربمہر لفافے میں سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی، معلومات سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ ایک صفحے کی رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کو 21 ارب روپے جاری کرنے میں حکومت کی ہچکچاہٹ سے متعلق بتایا گیا۔

اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی تھی کہ وہ اکاؤنٹ نمبر ون کے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرے اور اس سلسلے میں 17 اپریل تک وزارت خزانہ سے مناسب رابطہ کرے۔

سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد مرکزی بینک نے پیر کے روز فنڈز مختص کیے اور رقم جاری کرنے کے لیے وزارت خزانہ کی منظوری طلب کی۔

فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقم جاری کرنے کے لیے حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے جب کہ حکومت کو اس کے اجرا کے لیے قومی اسمبلی کی منظوری لینی ہوتی ہے۔

لیکن اسی روز قومی اسمبلی نے دونوں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو ضمنی گرانٹ کے طور پر 21 ارب روپے فراہم کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔

اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جگہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ضمنی گرانٹ کی موشن ایوان میں پیش کی جس پر ووٹنگ کے دوران اسے مسترد کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں