سپریم کورٹ سے 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم واپس لینے کی استدعا

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2023
رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلح افواج اکتوبر کے اوائل تک انتخابی فرائض سرانجام دینے کے قابل ہو جائیں گی— فائل فوٹو: سپریم کورٹ  ویب سائٹ
رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلح افواج اکتوبر کے اوائل تک انتخابی فرائض سرانجام دینے کے قابل ہو جائیں گی— فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے 4 اپریل کے حکم نامے کو واپس لینے کی درخواست کی ہے جس میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ استدعا ایک رپورٹ کے ساتھ منسلک درخواست کے ذریعے کی گئی تھی، جسے سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اور دیگر محکموں کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات کی تعمیل میں پیش کیا تھا۔

امکان ہے کہ تین رکنی بینچ (آج) بدھ کو ان رپورٹس کو چیمبر میں اٹھائے گا جس کے بعد یہ معاملے پر بدھ یا جمعرات کو کھلی عدالت میں سماعت ہونے کا امکان ہے۔

وزارت دفاع نے اپنی درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ قومی اور سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ساتھ کرانے کی ہدایت جاری کی جائے۔

رپورٹ میں زیادہ تر وہی اعتراضات تھے جو انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور سیکریٹری دفاع نے پیر کے روز چیف جسٹس اور دیگر دو ججوں کے سامنے تقریباً 3 گھنٹے پر محیط ان چیمبر بریفنگ اور اس سے قبل پارلیمنٹ کو دی گئی ان کیمرہ بریفنگ کے دوران پیش کیے تھے۔

رپورٹ میں ملک میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر انتخابات ایک ہی دن کرانے کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی گئی اور کہا گیا کہ مسلح افواج اکتوبر کے اوائل تک انتخابی فرائض سرانجام دینے کے قابل ہو جائیں گی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ’موجودہ سیکیورٹی کی صورتحال کے علاوہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ میں انٹیلی جنس پر مبنی کارروائیوں کی وجہ سے مسلح افواج، رینجرز، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور دیگر فورسز لاجسٹک طور پر 6 ماہ کے عرصے میں دو بار انتخابی سیکیورٹی کی فراہمی کی خاطر تعینات کیے جانے کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ’مسلح افواج کے ارکان کو انتخابی ڈیوٹی کے لیے تیار کرنے کے لیے خاصہ وقت درکار ہے، اس لیے کہ فورس کا بڑا حصہ کافی عرصے سے آپریشنز میں مصروف ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ پنجاب اور سندھ میں سیکیورٹی کی صورتحال بالترتیب خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری آپریشنز کی کوششوں کے تناظر میں مستحکم ہے۔

درخواست میں وضاحت کی گئی کہ اس لیے خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے فوجیوں کی کسی بھی قسم کی منتقلی کے نتیجے میں پنجاب اور سندھ میں سیکیورٹی کی صورتحال براہ راست متاثر ہوگی۔

انتخابات کیلئے فنڈز کامعاملہ

عدالت عظمیٰ نے حکومت کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 10 اپریل تک انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا حکم دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ حکومت کی جانب سے حکم کی تعمیل سے متعلق رپورٹ 11 اپریل کو فراہم کرے۔

تاہم حکومت نے معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوایا جس نے عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور فنڈز جاری کرنے سے انکار کردیا۔

گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن نے سربمہر لفافے میں سپریم کورٹ کو اپنی رپورٹ پیش کی تھی، معلومات سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ ایک صفحے کی رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کو 21 ارب روپے جاری کرنے میں حکومت کی ہچکچاہٹ سے متعلق بتایا گیا۔

اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی تھی کہ وہ اکاؤنٹ نمبر ون کے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے انتخابات کے لیے 21 ارب روپے جاری کرے اور اس سلسلے میں 17 اپریل تک وزارت خزانہ سے مناسب رابطہ کرے۔

سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد مرکزی بینک نے پیر کے روز فنڈز مختص کیے اور رقم جاری کرنے کے لیے وزارت خزانہ کی منظوری طلب کی۔

فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقم جاری کرنے کے لیے حکومت کی منظوری درکار ہوتی ہے جب کہ حکومت کو اس کے اجرا کے لیے قومی اسمبلی کی منظوری لینی ہوتی ہے۔

تاہم قومی اسمبلی نے دونوں صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو ضمنی گرانٹ کے طور پر 21 ارب روپے فراہم کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔

اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جگہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ضمنی گرانٹ کی قرارداد ایوان میں پیش کی تھی جس پر ووٹنگ کے دوران اسے مسترد کردیا گیا تھا۔


تبصرے (0) بند ہیں