جسٹس مظاہر نقوی کی جائیداد، ٹیکس تفصیلات کی تحقیقات پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اراکین کی رائے منقسم

اپ ڈیٹ 07 مئ 2023
سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ حکومت کو وہی غلطی نہیں دہرانی چاہیے جو پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے کی — فائل فوٹو: قومی اسمبلی ویب سائٹ
سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ حکومت کو وہی غلطی نہیں دہرانی چاہیے جو پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے کی — فائل فوٹو: قومی اسمبلی ویب سائٹ

پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی نقوی کے کیس کے معاملے پر منقسم ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو 15 روز میں سپریم کورٹ کے جج کی زیر ملکیت جائیدادوں اور ان کی جانب سے ادا کردہ ٹیکس کی تفصیلات پر مشتمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس حوالے سے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے کل اجلاس کے لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو نوٹس بھی جاری کردیا ہے۔

4 مئی کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر سردار ایاز صادق کے مطالبے پر ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے یہ معاملہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوایا تھا اور 15 روز کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کی زیرِ سربراہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے گزشتہ 10 برسوں میں سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس کا آڈٹ نہ کرانے پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو 16 مئی کو طلب کر رکھا ہے۔

تاہم پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے متعدد اراکین کا کہنا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور اگر حکومت کے پاس کسی جج کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو اسے مناسب طریقے سے اس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنا چاہیے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ڈومین نہیں ہے، آئین سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ججز کے احتساب کا طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو وہی غلطی نہیں دہرانی چاہیے جو پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے کی تھی جس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اسی طرح کا ریفرنس دائر کیا تھا اور اس کا الٹا نتیجہ نکلا تھا، حکومت کو نئی اور غلط مثالیں قائم کرنے کے بجائے صرف آئین پر عمل کرنا چاہیے۔

اسی طرح ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ وہ پہلے ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے متعدد اراکین سے اس معاملے پر بات چیت کرچکے ہیں اور ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ انفرادی کیسز لینا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ 28 رکنی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں کئی ارکان ہیں جن کا خیال ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرسکتے ہیں کیونکہ یہ کیس اُن مالی فوائد سے متعلق ہے جو مذکورہ جج قومی خزانے سے حاصل کر رہے تھے۔

ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ اگر جج کے ٹیکس گوشواروں میں کوئی غلطی ہے تو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو کابینہ کو مطلع کرنا چاہیے، اس کی بنیاد پر کابینہ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کر سکتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے بھی کہا کہ انفرادی کیسز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا ڈومین نہیں ہے، اس کا کام صرف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے اسے بھیجی گئی آڈٹ رپورٹس کی جانچ کرنا ہے۔

سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ وہ ممکنہ طور پر کل ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کر پائیں گے لیکن وہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو یہ ضررور بتائیں گے کہ وہ اس معاملے کو کسی اور محکمے کو بھیج دیں۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی میں یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے ایاز صادق نے کہا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف مختلف بار کونسلز پہلے ہی سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرچکی ہیں اور اس طرح کے الزامات سے عدلیہ کا امیج خراب ہورہا ہے۔

ایاز صادق کا کہنا تھا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایف بی آر اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ایونیو سے مدد لینی چاہیے۔

ڈپٹی اسپیکر نے قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 2007 کے قاعدہ نمبر 199 کے تحت یہ معاملہ تحقیقات اور آڈٹ کے لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوایا تھا اور 15 روز میں تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

واضح رہے کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 4 ریفرنسز زیر التوا ہیں جن میں ان پر بےانتظامی، اختیارات کا غلط استعمال اور آمدنی کے معلوم ذرائع سے زیادہ اثاثے رکھنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں