سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو آئندہ 4 سے 5 روز تک قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحویل میں رکھے جانے کا امکان ہے، نیب کی جانب سے انہیں عدالت میں پیش کرکے زیادہ سے زیادہ ریمانڈ کی درخواست کی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کو آج احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ ہم عمران خان کو کم از کم 4 سے 5 روز تک حراست میں رکھنے کی پوری کوشش کریں گے۔

خیال رہے کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں نئی ترامیم کے تحت کسی بھی عدالت کی جانب سے دیے جانے والے جسمانی ریمانڈ کی مدت 90 دن سے کم کر کے 14 روز کر دی گئی ہے۔

نیب ذرائع نے کہا کہ ہم عدالت سے زیادہ سے زیادہ 14 روز کا جسمانی ریمانڈ طلب کریں گے، توقع ہے کہ کم از کم 4 سے 5 روز کا ریمانڈ مل جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ عمران خان کو مکمل آرام دہ ماحول میں نیب کے راولپنڈی/اسلام آباد ریجنل ہیڈکوارٹرز میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ سخت رویہ نہیں اپنایا جائے گا بلکہ ان سے صرف اس کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہونے اور مالی فوائد حاصل کرنے کے حوالے سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق نیب نے عمران خان کے خلاف مقدمے کی تفصیلات بھی فراہم کردی ہیں۔

عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار

نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے رینجرز کی مدد سے عمران خان کی گرفتاری کو درست، قانونی اور خالصتاً نیب قوانین کے مطابق قرار دیا ہے۔

نیب کا اصرار ہے کہ عمران خان کی گرفتاری نیب کی جانب سے کی گئی انکوائری اور تفتیش کے قانونی تقاضے پورا کرنے کے بعد کی گئی ہے۔

نیب نے کہا کہ انکوائری/تفتیش کے عمل کے دوران عمران خان اور ان کی اہلیہ کو متعدد نوٹس جاری کیے گئے کیونکہ وہ دونوں القادر ٹرسٹ کے ٹرسٹی تھے، تاہم انہوں نے یا ان کی اہلیہ کی جانب سے کسی بھی نوٹس کا جواب نہیں دیا گیا۔

دریں اثنا نیب کی جانب سے القادر ٹرسٹ کیس میں دیگر مبینہ کرداروں کو بھی گرفتار کرنے کی تیاری کی جارہی ہے، عمران خان کے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کو گرفتار کرنے کے لیے بھی انٹرپول کے ذریعے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔

نیب کے مطابق شہزاد اکبر کا اس میں کلیدی کردار ہے، انہوں نے اور عمران خان نے مذکورہ معاہدے سے متعلق دستاویزات کو چھپا کر وفاقی کابینہ کو گمراہ کیا، رقم تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا چاہیے تھا۔

نیب کے بیان میں کہا گیا ہے کہ شہزاد اکبر کے خلاف ریڈ نوٹس جاری کرنے کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

انکوائری کے دوران نیب نے پی ٹی آئی کے 21 رہنماؤں کو نوٹس جاری کیے جو کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرانے کی سمری منظور ہونے کے وقت وفاقی کابینہ کا حصہ تھے، ان ارکان میں غلام سرور خان، مراد سعید، پرویز خٹک، شفقت محمود، شیریں مزاری، علی زیدی اور حماد اظہر شامل ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق نیب نے اس سے قبل ریئل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض اور اس معاملے سے فائدہ اٹھانے والے دیگر افراد کو بھی طلب کیا تھا، نیب کے نوٹس کے مطابق ملک ریاض کو گزشتہ سال یکم دسمبر کو نیب کے راولپنڈی ہیڈکوارٹرز میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا کہ اختیارات کے غلط استعمال، مالی فوائد اور اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علی ریاض ملک اور دیگر نے حکومت پاکستان کو فنڈز کی واپسی کے لیے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیے کا معاہدہ کیا۔

نوٹس میں مزید کہا گیا کہ ’بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے ضلع جہلم میں واقع 458 ایکڑ، 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی، لہٰذا آپ کے پاس ہر وہ معلومات/ثبوت ہے جو مذکورہ جرم (جرائم) کے ارتکاب سے متعلق ہے‘۔

ملک ریاض سے کہا گیا کہ وہ اس معاہدے کا مکمل ریکارڈ پیش کریں جس کے ذریعے یہ زمین القادر ٹرسٹ کو عطیہ کی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں