لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

گزشتہ منگل کو اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمران خان کی گرفتاری اور پھر عدالتوں کی طرف سے رہائی اور گرفتاری سے مکمل استثنیٰ ملنے کے بعد جمعہ کو دیر گئے لاہور میں ان کی فاتحانہ واپسی کا عرصہ بہت ڈرامائی تھا۔

عمران خان کے اس الزام کو کہ آئی ایس آئی کے ایک حاضر سروس میجر جنرل ان پر حملے کے ذمہ دار تھے اور اب بھی انہیں ختم کرنے کی سازش کر رہے ہیں، تجزیہ کاروں نے ان کی گرفتاری کی وجہ کے طور پر دیکھا۔ عدالتوں کی جانب سے گرفتاری سے مکمل استثنیٰ ملنے کے بعد انہوں نے الزامات کا رخ براہ راست آرمی چیف کی جانب کردیا ہے۔

عمران خان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجودہ آرمی چیف کی تقرری کی مخالفت کی تھی۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کو خدشہ تھا کہ اقتدار میں آنے پر ’میں انہیں ڈی نوٹیفائی کردوں گا جب کہ میرا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے‘۔ انہوں نے یہ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف انہیں سیاست سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔

بدھ کو ہونے والی تباہی کے دوران ہم نے ٹائیگر فورس اور عوام میں سے پی ٹی آئی کے حامیوں کو توڑ پھوڑ کرتے ہوئے اور اہم سرکاری اور فوجی تنصیبات کو نذر آتش کرتے ہوئے دیکھا۔ یہاں تک کہ کور کمانڈر لاہور کی سرکاری رہائش گاہ کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اس پوری صورت حال نے ایک سوال کو جنم دیا۔

’1977 یا 1999؟‘ ایک دوست نے مجھ سے یہ سوال پوچھا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اس کے خیال میں عمران خان کے واضح الزامات کے بعد شاید 1977ء کی ​​صورت حال زیادہ دکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ واضح ہوتا جا رہا تھا کہ اس طرح کی لڑائی کے اختتام پر دونوں میں سے صرف ایک کھڑا رہ جائے گا، یہ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔

ہفتے کے اختتام تک یہ واضح ہوتا جا رہا تھا کہ عمران خان کے پاس نہ صرف اسٹریٹ پاور ہے، بلکہ اہم اداروں میں بھی ان کے حامی ہیں۔ عدالتیں انہیں پرانے مقدمات میں ریلیف دے رہی تھیں اور نئے مقدمات میں ان کو ضمانتیں دے رہی تھیں۔ اس صورت حال میں ریاست کا مفلوج ہونا کہیں اور تقسیم کی نشان دہی کر رہا تھا۔

یہ سب ریٹائرڈ آرمی کیپٹن اور میجرز (برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم) کی یوٹیوب لائیو ویڈیوز میں واضح تھا جہاں وہ لوگوں کے نام لے رہے تھے اور ’مظاہرین‘ کو اعلیٰ فوجی اور انٹیلی جنس افسران کے گھروں تک پہنچا رہے تھے، یہاں تک کہ وہ ان کے پتے بھی فراہم کر رہے تھے۔ یہ واضح طور پر اندرونی معلومات اور مدد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اسے آپ عمران خان کی کامیابی کہیں یا ناکامی (اس پر منحصر ہے کہ آپ چیزوں کو کس طرح دیکھتے ہیں) کہ انہوں نے نہ صرف بڑے پیمانے پر لوگوں کو بلکہ خاندانوں اور اداروں کو بھی اس حد تک تقسیم کیا ہے کہ ان کی حمایت کرنا ’کرو یا مرو‘ کا انتخاب بن گیا ہے۔

اگرچہ ان کی پاپولسٹ سیاست نے ابتدائی طور پر نام نہاد اسٹیبلشمنٹ میں ان کے پروموٹرز کی جانب سے بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی ’معلومات‘ کی مہم کا فائدہ اٹھایا۔ اس مہم کے نتیجے میں جہاں ان کے سیاسی مخالفین ’چور ڈاکو‘ کے طور پر پیش کیے گئے وہیں عمران خان کو مسٹر کلین اور نجات دہندہ کے طور پر دکھایا گیا۔ تاہم اب عمران خان اپنی حمایت کو بہت حد تک بڑھا چکے ہیں اور یہ حمایت اب ملک کے بڑے حصے میں سرایت کر چکی ہے۔

اب ایک طرف اتنا طاقتور سویلین سیاست دان ہے اور دوسری طرف ماضی میں قوت رکھنے والے لوگ اور فوج ہے جو اپنے اثر و رسوخ کو کم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ عام طور پر یہ صورت حال ملک کے لیے اچھی ہی ہوتی اور اس سے بہتر اور روشن مستقبل کی امید پیدا ہوتی۔

لیکن صورت حال کو بعض دیگر عوامل کے تناظر میں بھی پرکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ اندرونی ’تقسیم‘ نے فوج کے اثر و رسوخ اور اختیار کو کس حد تک ختم کیا ہے؟ اگر یہ تقسیم بڑھتی رہی تو وہ ممکنہ طور پر چیف کو کس حد تک معذور کرسکتی ہے؟

اب جبکہ آرمی چیف اپنی قریبی ٹیم کی تشکیل پر توجہ دیں گے تو آنے والے وقتوں میں ہمیں اس سوال کا جواب مل جائے گا اور ایسا مہینوں میں نہیں بلکہ شاید آنے والے کچھ دنوں یا ہفتوں میں ہی ہوجائے۔ انہوں نے کرسی سنبھالنے کے بعد کچھ افسران کے تبادلے تو کیے ہیں لیکن زیادہ تر افسران کو ان کے منصب پر برقرار رکھا ہے۔

جنرل راحیل شریف نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل افسران کی تقرری انجام نہیں دی تھی۔ اس وقت جن افسران کو لیفٹیننٹ جنرل بنانا تھا (اگر مجھے صحیح یاد پڑتا ہے تو ان کی تعداد 8 تھی) ان کی ترقیوں کا فیصلہ انہوں نے آنے والے آرمی چیف یعنی جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ اپنی ٹیم تیار کرسکیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔

اس کے برعکس جنرل باجوہ نے جاتے جاتے 12 میجر جنرلز کو لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا (یہ تعداد دستیاب آسامیوں سے زیادہ تھی)۔ یہ فیصلہ شاید آنے والے آرمی چیف پر اثر انداز ہوا ہو، یا شاید نہ بھی ہوا ہو۔ لیکن اب بھی انہیں اپنی ٹیم تیار کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ایک بار جب وہ ایسا کرلیں تو پھر فوج میں ان کے الگ تھلگ ہونے کے بارے میں خواہشات یا افواہوں کے بجائے حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کیا جاسکے گا۔

دوسرا اہم عنصر یہ ہے کہ عمران خان جیسا مقبول رہنما جسے عوام اور اداروں کی غیر معمولی حمایت حاصل ہے اگر اقتدار میں آگیا تو وہ خود کو مطلق العنان حکمران بننے سے کیسے روکے گا؟

جس وقت کور کمانڈر لاہور کے گھر سے دھواں اٹھ رہا تھا، کراچی سے جلتی ہوئی بسوں کی تصاویر آرہی تھیں اور ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت شعلوں کی لپیٹ میں تھی اس وقت ایک پڑھے لکھے وکیل نے یہ کہہ کر ان تمام خدشات کو رد کردیا کہ ’انقلاب ایسے ہی آتے ہیں‘۔

یہ واقعی سچ ہو سکتا ہے لیکن پھر ہمیں 1933ء میں برلن میں رائخ اسٹاگ کو جلانے جانے اور اس کے بعد شروع ہونے والی تباہی کی بھی یاد آتی ہے۔ وہ شعلے پچھلی صدی کے بدترین مظالم کی ابتدا تھے جن کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔

پارٹی کی جانب سے حمایت اور دباؤ کی حکمت عملی ایک چیز ہے، لیکن تنصیبات پر حملہ بہت آسانی سے ملک کو انتشار، حتیٰ کہ فاشزم کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔ پاکستان کو سیاست میں فوج کی مداخلت اور سیاسی انجینئرنگ کے منصوبوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

جب سویلین رہنما اپنے تربیت یافتہ لوگوں اور حمایتیوں کو لگام ڈالنے میں ہچکچاتے ہیں اور جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کی مذمت نہیں کرتے تو وہ جمہوریت اور جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

معیشت کو بحال کرنے میں ناکام ہونے اور اپنی مخالفت میں ایک کے بعد ایک آنے والے عدالتی فیصلوں کے بعد حکومتی اتحاد نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ پیر کو (آج) عدالت عظمیٰ کے سامنے دھرنا دے کر پارلیمنٹ میں اور سڑکوں پر اپنی قوت دکھائیں گے۔

اس پورے معاملے کا کیا نتیجہ نکلے گا اس حوالے سے صرف اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔ اگر حالات قابو سے باہر ہوتے ہیں تو اس کے جتنے ذمہ دار ہمارے سویلین سیاست دان ہوں گے اتنے ہی ذمہ دار برسوں سے فوج کی جانب سے کی جانے والی سیاسی انجینیئرنگ بھی ہوگی۔


یہ مضمون 14 مئی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں