نور خان ایئربیس کے حکام نے مقامی پولیس اور کمشنر سے کہا ہے کہ وہ ’ریکارڈ رکھنے‘ کے مقصد سے بیس کے پانچ کلومیٹر کے دائرے میں ہتھیار رکھنے والے افراد کا ڈیٹا مرتب کر کے فراہم کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کی درخواست رواں سال فروری میں بیس کے ارد گرد ہوئی ہوائی فائرنگ، کیمیکل دھاگے کے علاوہ 450 سے زائد گولیوں کے ملنے اور ایک گولی کے سبب ایک کیبن کی ونڈ اسکرین کو پہنچنے والے نقصان کی روشنی میں سامنے آئی۔

24 فروری کو یہ واقعہ پیش آنے کے بعد سے بیس حکام نے کمشنر، علاقائی پولیس افسر (آر پی او) اور سٹی پولیس افسر (سی پی او) سے کئی بار کہا ہے کہ وہ ہوائی فائرنگ کو روکنے کے لیے حفاظتی انتظامات کو بہتر بنائیں اور خطرے کو روکنے کے لیے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کریں۔

ذرائع کے مطابق پی اے ایف بیس کے حکام نے مقامی پولیس سے کہا کہ وہ ’ریکارڈ کیپنگ‘ کے لیے 5 کلومیٹر کے دائرے میں ہتھیار رکھنے والے تمام افراد کا ڈیٹا برقرار مرتب کریں اور فراہم کریں۔

ذرائع کے مطابق اسی طرح کی درخواست ڈویژنل کمشنر اور پولیس کو 24 فروری کے واقعے سے تقریباً دو ہفتے قبل بھی کی گئی تھی۔

اس کے باوجود مقامی حکام ایئربیس کے اطراف بالخصوص فضل ٹاؤن، خرم کالونی، مسلم ٹاؤن، ڈھوک گنگل، ڈھوک لالال، چاہ سلطان، ڈھوک کھبہ، ڈھوک الہٰی بخش اور ڈھوک فرمان علی میں فائرنگ پر نظر رکھنے میں ناکام رہے۔

اس قسم کی فائرنگ نے فلائٹ آپریشنز کو متاثر کیا جبکہ حال ہی میں دو گولیاں ایئر بیس پر سروس مکینیکل ٹرانسپورٹ سگنل کیبن کی ونڈ اسکرین سے ٹکرا گئیں۔

پی اے ایف حکام نے ان واقعات کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس طرح کے عمل سے قومی اثاثوں کی حفاظت کو خطرے میں ڈالنے کے علاوہ، سروس طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے چوبیس گھنٹے کام کرنے والے عملے کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

حکام نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس سے بھی درخواست کی کہ ایئر فیلڈ کے ارد گرد مختلف سرچ آپریشنز کے ذریعے اس رجحان کو روکا جائے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جاسکے اور بیس کے آس پاس کے پورے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کی جائے۔

انہوں نے پولیس سے شاہین ٹاؤن، صادق آباد، اصغر مال سکیم، آفندی کالونی اور ڈھوک کھبہ میں ترجیحی بنیادوں پر سرچ آپریشن کرنے کا بھی کہا۔

نور خان بیس کے حکام وقتاً فوقتاً ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو ہوائی فائرنگ روکنے کے لیے اڈے کے گردونواح میں سرچ آپریشن کرنے کے لیے کہتے رہے ہیں لیکن اس سلسلے میں کریک ڈاؤن کا تاحال انتظار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں