آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کے کیس میں وفاقی حکومت کے بعد آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تشکیل کردہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں کے کیس میں سیکریٹری انکوائری کمیشن نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائےگئے انکوائری کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہےکہ اس بینچ کے لیے درخواستوں کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا، انکوائری کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ درخواستوں کو آرٹیکل (184) (3) کے تحت سن رہی ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کی اپنی آڈیو منظر عام پر آئی، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کیسے مفاد کا معاملہ اٹھا سکتے ہیں۔

انکوائری کمیشن کی جانب سے مزید کہا گیا کہ کمیشن کو معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، انکوائری کے دوران آنے والے اعتراضات کو زیر غور لایا جائے گا۔

جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نئے قانون کے بعد بینچ کی تشکیل تین رکنی کمیٹی کا اختیار ہے، انکوائری کمیشن کے خلاف درخواستوں کو کمیٹی کے تعین تک سنا جائے۔

انکوائری کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ جسٹس منیب اختر کا ایک آڈیو میں ذکر ہے، ایک آڈیو چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے، ججز کا حلف آئین و قانون کی پاسداری کی بات کرتا ہے، کمیشن کو اب تک درخواستوں کی نقول فراہم نہیں کی گئیں۔

سماعت کا احوال

بعد ازاں سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بینچ کے خلاف ‏حکومتی درخواست میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو نہیں ہونے چاہیے تھے۔

سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف دائر درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

مذکورہ درخواستیں عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر نے کمیشن کے خلاف دائر کر رکھی ہیں، سپریم کورٹ کے حکم پر آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے کاروائی روک رکھی ہے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کی درخواست ابھی دائر نہیں ہوئی، رجسٹرار آفس سے کہتے ہیں کہ دائر کروا دے۔

ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے کہا کہ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کرنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ اور بھی درخواستیں دائر ہوئی ہیں، ہمارے پاس موجودہ کیس میں کچھ درخواستیں آئی ہیں ان کو کیس میں شامل کر لیں گے، اٹارنی جنرل کی درخواست پر پہلے سماعت کریں گے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ بنچ پر اعتراض کے معاملے پر اٹارنی جنرل کے دلائل سنیں گے، بینچ پر اعتراض پر گزشتہ سماعت میں فیصلہ نہیں کیا تھا، ابھی نئی درخواستوں پر اگلے ہفتے دلائل سن لیں گے، ‏حکومتی درخواست میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو نہیں ہونے چاہیے تھے۔

عابد زبیری کی جانب سے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہم تو ٹاک شوز میں سپریم کورٹ کا دفاع کرتے ہیں، جوڈیشل کمیشن نے فیصلے میں کہا ہم ٹاک شوز میں عدلیہ کے خلاف بولتے ہیں، سپریم کورٹ کے باہر جو کچھ کہا گیا سب کے سامنے ہے۔

شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ آڈیو لیکس کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میں ٹاک شوز میں بیٹھ کر باتیں کرتا ہوں، ہم تو عدالت کا دفاع کرنے جاتے ہیں، آپ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کیسی کیسی باتیں کی جاتی ہیں۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی سب باتیں سنیں گے جب آپ دلائل دیں گے، اگلے ہفتے اس کیس کو کسی دن سنیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی ایسی آڈیوز سامنے آئی ہیں جنہیں عدلیہ یا ججز سے منسوب کیا گیا تھا۔

21 مئی کو وفاقی حکومت نے ججز کی آڈیو لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا جس کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کمیشن کے ارکان میں شامل ہیں۔

25 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست 26 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔

26 مئی کو سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے 31 مئی کو اگلی سماعت کے لیے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔

گزشتہ روز 30 مئی کو سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کرنے والے بینچ پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے نیا بینچ تشکیل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں