سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست کل سماعت کے لیے مقرر کر دی۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ جمعے (کل) کو صبح 11 بجے سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ میں چیف جسٹس عمر عطابندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستیں صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری اور سیکریٹری بار مقتدر اختر شبیر نے دائر کی ہیں، چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں اور ان کے علاوہ وکیل حنیف راہی کی جانب سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے ججوں کی آڈیو لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا ہے جس کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کمیشن کے ارکان میں شامل ہیں۔

آڈیو لیکس معاملے پر کمیشن ایک سماعت کر چکا ہے جبکہ دوسری سماعت ہفتہ 27 مئی کو ہوگی، کمیشن نے آڈیوز میں شامل چار افراد کو طلب کر رکھا ہے۔

اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے آڈیو لیکس معاملے کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے ایڈووکیٹ بابر اعوان کے توسط سے جوڈیشل کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی گئی تھی۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جاسکتا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔

خیال رہے کہ 21 مئی کو وفاقی حکومت نے عدلیہ اور ججوں سے متعلق مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔

کمیشن کے قیام کا نوٹی فکیشن کابینہ ڈویژن سے جاری کیا گیا جو 19 مئی کو گزیٹ آف پاکستان میں شائع ہوا تھا۔

نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ حال ہی میں قومی الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر عدلیہ، سابق چیف جسٹسز، ججوں کی گفتگو سے متعلق گردش کرنے والی متنازع آڈیوز نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس، ججوں کی غیر جانب داری، آزادانہ اور دیانت داری سے فیصلے کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔

اس ضمن میں مزید کہا گیا تھا کہ چنانچہ عوامی مفاد میں عدلیہ کی ساکھ اور عوام کا اس پر بھروسہ اور اعتماد بحال کرنے کے لیے ان آڈیو لیکس کی صداقت اور درستی کی تحقیقات کرنا لازم ہے۔

بعدازاں 22 مئی کو عدلیہ اور ججوں سے متعلق آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے انکوائری کمیشن کے پہلے اجلاس میں اس کی کارروائی پبلک کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

کمیشن نے اپنے پہلے اجلاس کی کارروائی کے حکم نامے میں کہا کہ اجلاس میں پنجاب فرانزک ایجنسی کا نمائندہ موجود رہے گا، اگر کوئی فرد انکار کرے کہ میری آواز نہیں ہے تو وہ معاونت فراہم کرے۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اگر قابل احترام بزرگ خواتین کے بیانات قلمبند کرنے کی ضرورت پیش آئی تو کمیشن اجلاس لاہور میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔

ساتھ ہی جوڈیشل کمیشن نے مبینہ آڈیوز کی فہرست طلب کی تھی۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ نوٹسز وفاقی حکومت کے مقرر کردہ افسر یا کوریئر کے ذریعے بھیجے جائیں، جس شخص کو نوٹس بھیجا جائے اس کی نوٹس وصولی کی تصویر اتاری جائے۔

کمیشن نے حکم دیا تھا کہ نوٹس ایک سے زائد بار جاری کیا جائے، بار بار نوٹس بھیجنے کے باوجود وصول نہ کرنے والے فرد کے گھر کے باہر نوٹس چسپاں کرکے اس کی تصویر بنائی جائے۔

بعد ازاں انہوں نے کہا کہ کمیشن کی کارروائی ہفتے کے روز ہوگی اور مزید کارروائی 27 مئی تک کے لیے ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی ایسی آڈیوز سامنے آئی ہیں جنہیں عدلیہ یا ججوں سے منسوب کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں