بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو قرضوں میں 98 فیصد کمی

اپ ڈیٹ 31 مئ 2023
انہوں نے کہا کہ ملک کے پاس کپاس درآمد کرنے کے لیے زرمبادلہ نہیں ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
انہوں نے کہا کہ ملک کے پاس کپاس درآمد کرنے کے لیے زرمبادلہ نہیں ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو رواں مالی سال صرف 28 ارب روپے کا قرضہ دیا گیا، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 98 فیصد کم ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے رپورٹ کیا کہ یکم جولائی سے 19 مئی تک نجی شعبے نے محض 27 ارب 90 کروڑ روپے کا قرضہ لیا جبکہ گزشتہ برس 14 کھرب 14 ارب کا قرضہ لیا گیا تھا۔

ملکی معیشت کو تاریخ کے 21 فیصد کی بُلند ترین شرح سود اور 36 فیصد کی مہنگائی کا سامنا ہے، اوسط افراط زر کی شرح رواں مالی سال میں 30 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔

ٹیکسٹائل مینوفیکچرر اور برآمدکنندہ عامر عزیز نے بتایا کہ بُلند افراط زر اور 36 فیصد کی غیر معمولی مہنگائی میں کاروبار کو چلانے کا کوئی چانس نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات پہلے ہی گر رہی ہیں اور خدشہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں صورتحال بدتر ہو جائے گی کیونکہ ملز کے پاس کپاس کے ذخائر ختم ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں صرف 50 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار ہوئی ہے جبکہ ضرورت ایک کروڑ 50 لاکھ گانٹھوں کی ہے، ملک کے پاس اس کو درآمد کرنے کے لیے زرمبادلہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ نجی شعبہ بینکوں سے دور ہورہا ہے۔

بینکرز نے بتایا کہ شرح سود بنیادی پالیسی ریٹ 21 فیصد کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے، اس کا انحصار قرض لینے والے سے منسلک خطرات پر ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں کوئی کاروبار نہیں چل سکتا۔

مالیاتی شعبے کا خیال ہے کہ مرکزی بینک مہنگائی پر قابو پانے کے لیے بنیادی شرح سود میں مزید اضافہ کرسکتا ہے، جبکہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کو بھی موجودہ شرح سود پر اعتراض ہے۔

بُلند شرح سود کے پہلے ہی منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں، زیادہ تر تجزیہ کاروں اور ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ رواں مالی سال میں شرح نمو منفی ہوسکتی ہے۔

تاہم پاکستان ادارہ شماریات نے زراعت کی نمو 1.55 فیصد رپورٹ کی ہے حالانکہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ برس سیلاب سے 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، شرح نمو اس بڑے نقصان سے مطابقت نہیں رکھتی۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان ادارہ شماریات کے نتائج سے خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 0.29 فیصد ہوسکتی ہے لیکن کافی کو یقین ہے کہ اس بار کوئی شرح نمو نہیں ہوگی۔

ایک سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ ہمیں بڑھتی ہوئی سیاسی اور معاشی بے یقینی کی صورتحال کے تحت بقا کے سنگین سوال کا سامنا ہے، خاص طور پر جب آئی ایم ایف اپنی نویں جائزے کی قسط کے اجرا پر خاموش ہے۔

پاکستان کو موجودہ معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے خطیر مالی مدد کی ضرورت ہے، تجزیہ کار نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اس بار چین ہمیں بچانے کے لیے نہیں آئے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں