القادر ٹرسٹ کیس: احتساب عدالت اسلام آباد نے عمران خان کی 19 جون تک ضمانت منظور کر لی

اپ ڈیٹ 31 مئ 2023
القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے—تصویر: ڈان نیوز
القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان حفاظتی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے—تصویر: ڈان نیوز

احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی 5 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض 19 جون تک ضمانت منظور کر لی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کی حفاظتی ضمانت میں 3 روز کی توسیع کرنے اور انہیں احتساب عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کے بعد سابق وزیر اعظم اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔

احتساب عدالت اسلام آباد میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے، درخواست ضمانت پر جج محمد بشیر نے سماعت کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ نے کیا حکم دیا ہے، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین دن کا حکم دیا ہے کہ متعلقہ عدالت سے رجوع کر لیں۔

جج محمد بشیر نے پوچھا کہ تو آپ نے آج ہی درخواست دائر کر دی؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے تیار کر رکھی تھی کہ اگر ضرورت پڑی تو دائر کر دیں گے۔

خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ 17 تاریخ کو انسداد دہشت گردی عدالت آنا ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ 17 جون تک ضمانت دی جائے۔

عدالت نے عمران خان کی 5 لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض 19 جون تک ضمانت منظور کر لی۔

نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف عدالت کے روبرو ہیش ہوئے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 17 جون کو ہفتہ کا دن بن رہا ہے، ہفتے کے علاوہ کوئی اور دن رکھا جائے، ہفتے والے دن ریکارڑ روم بند ہوتا ہے۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 19 جون تک ملتوی کردی۔

عمران خان کی ضمانت میں 3 روز کی توسیع، بشریٰ بی بی کی درخواست غیر مؤثر قرار

قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حفاظتی ضمانت میں 3 روز کی توسیع کردی اور ساتھ ہی انہیں احتساب عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کر دی۔

ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی سربراہی میں جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل 2 رکنی ڈویژن بینچ نے القادر ٹرسٹ میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

عمران خان اپنے وکلا خواجہ حارث و دیگر کے ساتھ عدالت پیش ہوئے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل، لا افسران اور نیب قانونی ٹیم بھی عدالت میں پیش ہوئی۔

خواجہ حارث نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست گزار اسلام آباد کی مختلف عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں، درخواست گزار کی پیشی پر سیکیورٹی مسائل بھی ہیں اور ان کے آنے پر کروڑوں روپے سیکیورٹی کے نام پر خرچ ہوتے ہیں۔

جسٹس میاں گل اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا آپ نیب کے سامنے شامل تفتیش ہوئے؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نیب کے سامنے ہم شامل تفتیش ہوچکے ہیں۔

چنانچہ عدالت عالیہ نے عمران خان کی تین روز کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 3 ورکنگ دنوں میں احتساب عدالت سے رجوع کرنے کا حکم بھی دیا۔

بشریٰ بی بی کی درخواست غیر مؤثر قرار

دوسری جانب احتساب عدالت میں اسی کیس کے سلسلے میں تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کیس میں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی گرفتاری درکار نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے ان کی ضمانت کی درخواست کو غیر مؤثر قرار دے دیا۔

احتساب عدالت اسلام آباد کے جج محمد بشیر نے این سی اے تحقیقات، 19 کروڑ پاؤنڈز اسکینڈل کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان نے 13 مئی کو ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے نیب، چیئرمین نیب کے خلاف غیر اخلاقی زبان استعمال کی۔

سردار مظفر عباسی نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے نیب کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا، انہوں نے کہا کہ نیب نے بشریٰ بی بی کے وارنٹ جاری کیے، یہ بدنیتی ہے تاکہ نیب کو دبایا جائے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر کا مزید کہنا تھا کہ نہ ہم نے چھاپہ مارا، نہ حملہ کیا، نہ بشریٰ بی بی کے وارنٹ جاری کیے گئے، ہماری کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں، ہم نے بشریٰ بی بی کے وارنٹ کبھی جاری نہیں کیے، جب وارنٹ ہی نہیں تو درخواست ضمانت خارج کردی جائے۔

عمران خان اور ان کے اہلیہ کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے یہی سننا ہے کہ نیب کتنا پارسا ہے تو آج سے نہیں سپریم کورٹ کے حکم نامے سے شروع کریں گے۔

وکیل نے کہا کہ نیب کی جانب سے انکوائری میں طلبی کا ایک نوٹس بھی نہیں بھیجا گیا، انکوائری تحقیقات میں تبدیل ہوئی، بشریٰ بی بی عدالت کے حکم پر اپنے شوہر کے ساتھ نیب کے دفتر گئیں تو نیب نے عمران خان کو اندر بلایا اور بشریٰ بی بی کو کہا آپ کا تو وقت ہی نہیں ہے، جس پر بشریٰ بی بی 6 گھنٹے گاڑی میں بیٹھ کر عمران خان کا انتظار کرتی رہیں۔

عدالت میں تفتیشی افسر میاں عمر ندیم نے بیان دیا کہ بشریٰ بی بی کے حوالے سے کسی قسم کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے گئے نہ ان کی گرفتاری کی ضرورت ہے۔

تفتیشی افسر کے بیان کے بعد عدالت نے بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت غیر مؤثر قرار دے کر انہیں جانے کی اجازت دے دی۔

خیال رہے کہ 23 مئی کو نیب نے عمران خان سے اپنے دفتر میں تقریباً 4 گھنٹے پوچھ گچھ کی اور انہیں آئندہ سماعت پر ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت دی تھی، ذرائع کے مطابق نیب حکام نے عمران خان کے جوابات کو بھی ’غیر تسلی بخش‘ قرار دیا تھا۔

تحقیقات کے سلسلے میں پیشی کے دوران دیے ایک تحریری جواب میں عمران خان نے ملک ریاض کے ساتھ خفیہ معاہدے کی ذمہ داری بھی اپنے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر پر ڈال دی تھی۔

عدلیہ سے اظہار یکجہتی سے متعلق، دیگر کیسز میں عمران خان کی ضمانت میں 10 روز کی توسیع

ادھر عدلیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی پر نکالی گئی ریلی پر درج مقدمے اور نامعلوم مقدمات میں عمران خان کی 10 روز کے لیے عبوری ضمانت میں توسیع کردی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بہت سارے کیسسز تو ڈیسائڈ ہوچکے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے عدلیہ کی حمایت میں نکالی گئی ریلی اور دیگر نامعلوم مقدمات میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں 10 روز کی توسیع کردی۔

عدالت نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر جو آرڈر کیا تھا وہ ہم نے اسلام آباد کی حد تک کیا تھا، ایک دن ایک کیس میں دوسرے دن دوسرے اور تیسرے دن تیسرا کیس آتا ہے۔

وکیل عمران خان بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ ہمیں اس کیس میں بھی 10 دن کی ضمانت دی جائے، 150 سے زائد کیسز ہیں ایک ایک کیس میں شامل تفتیش ہونا ضروری ہے، نئے مقدمات میں بھی ہمیں حفاظتی ضمانت دی جائے۔

عمران خان کے خلاف کچہری میں زیر سماعت کیسز جوڈیشل کمپلیکس منتقل کرنے کا حکم

عمران خان کے وکیل شیر افضل نے عدالت میں کہا کہ کچہری میں زیر سماعت مقدمات پر ہم یہاں دلائل دینا چاہتے ہیں، درخواست گزار کو سیکیورٹی خدشات ہیں، ایف 8 کچہری نہیں جاسکتے، اکثریت کیسز ایف 8 کچہری میں ہیں وہاں جانا ممکن نہیں ہمارے خدشات ہیں۔

وکیل نے استدعا کی کہ عمران خان کے خلاف درج دیگر مقدمات کی سماعت کو جوڈیشل کمپلیکس منتقل کیا جائے۔

لہٰذا اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف کچہری میں زیر سماعت کیسز کو جوڈیشل کمپلیکس منتقل کرنے کی ہدایت کردی۔

القادر ٹرسٹ کیس

سال 2018 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈز مالیت کے تصفیے پر اتفاق کیا تھا۔

این سی اے کے جاری کردہ بیان کے مطابق تصفیے میں برطانیہ کی ایک جائیداد، 1 ہائیڈ پارک پلیس، لندن، شامل تھی جس کی مالیت تقریباً 5 کروڑ پاؤنڈ تھی اور تمام رقم ملک ریاض کے منجمد اکاؤنٹس میں آگئیں۔

اسی سال جب یہ پتا چلا تھا کہ ملک ریاض نے کراچی کے مضافات میں ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی غیر قانونی طور پر حاصل کی تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کے عوض ملک ریاض کی رئیل اسٹیٹ کمپنی، بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کی جانب سے 460 ارب روپے کے سیٹلمنٹ واجبات کی پیشکش قبول کر لی تھی۔

این سی اے کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد ملک ریاض نے ٹوئٹ کیا تھا کہ برآمد شدہ رقم، سپریم کورٹ کے 460 ارب روپے جرمانے کی ادائیگی میں جائیں گے۔

بعد ازاں جب این سی اے نے 3 دسمبر کو اپنے فیصلے کا اعلان کیا تو یہ رقم حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹس میں منتقل کر دی گئی جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا تھا کہ رقم براہ راست ریاست کے پاس آئے گی۔

بعد میں اس ابہام کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’کیا سپریم کورٹ حکومت کا حصہ نہیں ہے؟ لہٰذا اگر پیسہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیسہ ریاست کے پاس آتا ہے‘۔

جون 2022 میں یہ معاملہ ایک مبینہ آڈیو لیک ہونے کے بعد دوبارہ سامنے آیا جس میں مبینہ طور پر ملک ریاض اور ان کی بیٹی کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی تھی، جس میں دونوں کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی دوست فرح خان عرف گوگی کے فرضی مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کے کچھ مبینہ احسانات پر، خاتون نے اپنے والد کو بتایا کہ فرح نے انہیں بتایا تھا کہ (سابق) خاتون اول نے ان سے 3 قیراط کی ہیرے کی انگوٹھی قبول نہ کرنے کو کہا تھا اور 5 قیراط کا مطالبہ کیا تھا۔

گزشتہ برس یکم دسمبر کو بظاہر رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش میں قومی احتساب بیورو نے علی ریاض اور دیگر فائدہ اٹھانے والوں کو پیش ہونے کو کہا۔

نیب کے نوٹس میں کہا گیا کہ اختیارات کے غلط استعمال، مالی فوائد اور اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی کے الزامات کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علی ریاض ملک اور دیگر نے حکومت پاکستان کو فنڈز کی واپسی کے لیے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کا معاہدہ کیا۔

مزید برآں میسرز بحریہ ٹاؤن نے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے موضع برکالا، تحصیل سوہاوہ، ضلع جہلم میں واقع 458 ایکڑ، چار مرلہ اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی ہے، لہٰذا آپ کے پاس ہر وہ معلومات/شواہد ہیں جو مذکورہ جرم (جرائم) کے کمیشن سے متعلق ہیں۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق عمران خان کی اہلیہ ٹرسٹ کے ٹرسٹیز میں سے ایک ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں