آڈیوز، ویڈیوز کو بغیر ماخذ کے ثبوت تصور نہیں کیا جاسکتا، لاہور ہائیکورٹ

جج نے پیمرا کو تمام ٹیلی ویژن چینلز کو ویڈیو نشر کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا۔—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
جج نے پیمرا کو تمام ٹیلی ویژن چینلز کو ویڈیو نشر کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا۔—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کسی بھی آڈیو یا ویڈیو کو اس کے ذریعے یا ملکیت کی عدم موجودگی میں کسی بھی طرح کی تشریح کے ذریعے ملزم کے خلاف کارروائی کے لیے ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس شاہد جمیل خان نے نجی اسکول میں ایک طالبہ پر جسمانی تشدد کے واقعے کی ویڈیو کلپ نشر کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص کے خلاف اس طرح کی آڈیو اور ویڈیو لیک ہوئی وہ متاثرہ ہے، ملزم نہیں۔

جج نے پہلے ہی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو تمام ٹیلی ویژن چینلز کو ویڈیو نشر کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا۔

ڈیفنس اے پولیس اسٹیشن نے متاثرہ کے والد کی شکایت پر چار لڑکیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی، ملزمان، جنت ملک، کائنات ملک (دونوں بہنیں) اور عمیمہ قیصر، اور متاثرہ طالبہ علیحہ عمران، اسکالر ڈیل، امریکن انٹرنیشنل اسکول، جو ڈیفنس بی بی، فیز IV میں واقع ہے، میں پڑھتی ہیں۔

عمیمہ نے کم سن لڑکیوں کے چہرے چھپائے بغیر نیوز چینلز پر واقعے کی ویڈیو کلپ نشر کرنے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔

جمعہ کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر احمد نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی سائبر کرائم کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر محترمہ رخسانہ کی مدد سے سوشل میڈیا پر آڈیو یا ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے اصل ذریعے کی شناخت کرنے کے لیے ایجنسی کی صلاحیت کے بارے میں عدالت کے سوال کا جواب دینے کے لیے مزید وقت مانگا۔

جسٹس شاہد جمیل خان نے کہا کہ اگر ایف آئی اے کے پاس ایسے شخص یا ذریعے کی شناخت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو لا آفیسر عدالت کو آگاہ کرے گا کہ کیا یہ بین الاقوامی سطح پر دستیاب ہے اور بتائے گا کہ وفاقی حکومت نے اپنی صلاحیت کو اپ ڈیٹ کیوں نہیں کیا۔

جج نے کہا کہ آڈیو اور ویڈیوز کو ریکارڈ اور اپ لوڈ کرکے رازداری کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ایک کثیر الجہتی معاملہ ہے۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ کچھ بنیادی سوالات ہیں کہ کیا کسی بھی ایجنسی، وفاقی یا صوبائی کو آڈیو یا ویڈیوز کی ریکارڈنگ کے لیے رازداری میں دخل اندازی کرنے اور اس کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر ریاستی سلامتی کے بہانے کوئی ایجنسی رازداری میں دخل اندازی کرتی ہے تو کیا اس طرح کے جمع کردہ مواد کو قانون کے تحت کسی شہری یا فوجداری کارروائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جج نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا آزادی اظہار، جو کہ ایک بنیادی حق ہے اسے استعمال کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جب اس سے وقار اور ساکھ کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔

جسٹس شاہد جمیل خان نے فیصلہ دیا کہ رازداری کی خلاف ورزی ایک جرم (اعلی درجے کا جرم) ہونا چاہیے اور اس طرح کے مواد کو عام کرنا ریاست کے لیے فوجداری قوانین کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے ہرجانے کے لیے سول قوانین کا سہارا لے کر ناقابل برداشت ہونا چاہیے۔

جج نے کہا کہ ’جو شخص کسی شہری کی رازداری کی خلاف ورزی کرتا ہے، اگر اس کے خلاف کسی ایجنسی کی جانب سے کارروائی نہیں کی جاتی تو ایجنسی کے انچارج افسر کو جرم میں ملوث سمجھا جانا چاہیے اور اس طرح کی غلطیوں کے لیے تادیبی کارروائی اور اس کے بعد اگر قانون کے تحت جائز ہو تو فوجداری کارروائی شروع کی جانی چاہیے۔

زیر بحث ویڈیو کے خلاف حکم امتناعی کے حوالے سے جج نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اگر پاکستان کی سرزمین سے سوشل میڈیا پر ایسا مواد اپ لوڈ کیا گیا تو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی مجرمانہ کارروائی کو یقینی بنائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں