پنجاب، کے پی انتخابات ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ 3-4 کا کہنا بالکل غلط ہے، جسٹس منیب اختر

اپ ڈیٹ 13 جون 2023
جسٹس منیب اختر نے وضاحت کی کہ 27 فروری کا حکم انتظامی حکم نہیں تھا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس منیب اختر نے وضاحت کی کہ 27 فروری کا حکم انتظامی حکم نہیں تھا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں جسٹس منیب اختر نے اقلیتی فیصلے کے تنازع کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے تشکیل دیے گئے دونوں بینچز (9 رکنی اور 5 رکنی) کی تائید کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنے 43 صفحات پر مشتمل فیصلے میں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بینچ کی تشکیل نو کے لیے 9 رکنی بینچ کا 27 فروری کا حکم ایک ’انتظامی حکم‘ نہیں ’عدالتی حکم‘ تھا، یہ حکم 2 جائز طور پر تشکیل شدہ بینچز کے درمیان ایک ’فیصلہ کن وقفہ‘ یا ایک ’بیریئر‘ کی مانند تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ بات قابل غور ہے کہ سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر پانچوں ججز کے دستخط موجود ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے دستخط کے ساتھ لکھا کہ ’میں نے الگ سے آرڈر لکھا ہے‘، جسٹس جمال مندوخیل نے لکھا کہ ’میں نے مرکزی فیصلے کے ساتھ الگ نوٹ تحریر کیا ہے‘، اختلاف کرنے والے دونوں ججز نے مشترکہ آرڈر جاری کیا جس پر صرف 2 ججز کے دستخط موجود تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ٹی روم میں 90 منٹ تک جاری رہنے والی بحث کے بعد اپنے 27 فروری کے حکم کے ذریعے 9 ججز پر مشتمل بینچ کو 5 رکنی بینچ میں تقسیم کر دیا تھا، تاکہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخوں میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کی کارروائی جاری رکھی جاسکے۔

9 ججز کے دستخط شدہ 27 فروری کے حکم نامے میں کہا گیا کہ یہ معاملہ 23 فروری کے حکم اور جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ کے اضافی نوٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ٹی روم میں کی گئی بحث/بات چیت کو مدنظر رکھتے ہوئے واپس چیف جسٹس کو بھیجا گیا تھا۔

بعد ازاں 27 مارچ کو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے تفصیلی دلائل میں وضاحت کی کہ سپریم کورٹ نے 3-4 کی اکثریت سے نہیں بلکہ 2-3 کی اکثریت سے یکم مارچ کو پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کو خارج کر دیا تھا اور اس وجہ سے اسی فیصلے کو عدالت کے حکم کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔

دونوں ججز نے بینچوں کی تشکیل کو ریگولیٹ کرنے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی ’صوابدید‘ پر بھی سوال اٹھائے تھے اور عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو یقینی بنانے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو حاصل کردہ ’ون مین شو‘ کے اختیارات پر نظرثانی کی ضرورت پر روشنی ڈالی تھی۔

عدالتی حکم بمقابلہ انتظامی حکم

گزشتہ روز جاری ہونے والے تفصیلی فیصلے میں جسٹس منیب اختر نے وضاحت کی کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن ازخود نوٹس کیس پر سب سے پہلے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا، اس بینچ نے 23 فروری کو کیس کی سماعت کی۔

انہوں نے کہا کہ 9 رکنی بینچ نے 23 فروری کی سماعت کے بعد ٹی روم میں ملاقات کی، ملاقات کے دوران 9 ججز نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا جو کہ 27 فروری کو بینچ کی ازسر نو تشکیل کا حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے مطابق بینچ کے 9 ارکان نے متفقہ طور پر بینچ کی تشکیل نو کا معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان پر چھوڑ دیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 27 فروری کا یہ حکم انتظامی حکم نہیں تھا اور نہ ہو سکتا ہے بلکہ یہ 9 رکنی بینچ کی جانب سے دیا گیا عدالتی حکم تھا، اس عدالتی حکم کے جواب میں ہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے بینچ کی تشکیل نو کی گئی تھی اور نیا 5 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ 27 فروری کا یہ عدالتی حکم درحقیقت 2 جائز طور پر تشکیل شدہ بینچوں کے درمیان ایک فیصلہ کن وقفہ بلکہ ایک بیریئر تھا، لہٰذا سپریم کورٹ کے انتخابات سے متعلق فیصلے کو 4 اور 3 کا فیصلہ کہنا غلط ہے۔

تفصیلی فیصلے میں انہوں نے کہا کہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ دونوں 27 فروری کے عدالتی حکم نامے پر 9 رکنی بینچ کے رکن کی حیثیت سے دستخط کرنے والوں میں شامل تھے، حتیٰ کہ 9 رکنی بینچ کے 2 دیگر اراکین جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل (جو 5 ججز کے بینچ میں اقلیت میں ہیں) بھی اسی طرح دستخط کنندہ تھے۔

جسٹس منیب اختر نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ یہ کسی انتظامی سہولت یا بینچ کے باقی 5 اراکین کی سہولت کا معاملہ نہیں تھا، اس حوالے سے کوئی علیحدہ سماعت نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی دیگر 5 ارکان تھے کیونکہ پہلے تشکیل دیے گئے 9 ججز پر مشتمل بینچ کا وجود ختم ہو چکا تھا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جہاں تک جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کا تعلق ہے، بینچ کی تشکیل نو کے لیے کی گئی متفقہ درخواست ان کی جانب سے 23 فروری کو خود کو کیس سے علیحدہ کرنے کے آرڈر کے مطابق تھی، اس کے بعد جب وہ اس نئے تشکیل شدہ 5 رکنی بینچ کا حصہ ہی نہیں تھے تو ان کی جانب سے اس حوالے سے دیے گئے کوئی ریمارکس یا اقدام کو کیسے شمار کیا جاسکتا ہے؟

تفصیلی فیصلے میں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا انتخابات سے متعلق فیصلہ 4 اور 3 کا کہنا بالکل غلط ہے، 7 رکنی بینچ بنا ہی نہیں تو 4 اور 3 کا تناسب کیسے ہوسکتا ہے؟

تبصرے (0) بند ہیں