حکومت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بجائے آئینی مدت پوری کرنی چاہیے، نیئر بخاری

14 جولائ 2023
نیئر بخاری نے کہا کہ آئینی مدت کی تکمیل سے محض چند دن قبل اسمبلیاں تحلیل کرنے سے کچھ اچھا پیغام نہیں جائے گا— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
نیئر بخاری نے کہا کہ آئینی مدت کی تکمیل سے محض چند دن قبل اسمبلیاں تحلیل کرنے سے کچھ اچھا پیغام نہیں جائے گا— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما نیئر بخاری نے موجودہ حکومت کو قومی اسمبلی تھلیل کرنے کے بجائے اپنی مدت پوری کرنے چاہیے جو 12اگست کو مکمل ہو رہی ہے۔

ان کی یہ تجویز ایک ایسے موقع پر سامنے آئی جب وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ حکومت اگلے ماہ اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد انتظام نگران حکومت کے سپرد کردے گی۔

حکومت کی پانچ سالہ مدت کا آغاز سابقہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں 12 اگست 2018 کو ہوا تھا اور گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کی تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد اب وزیراعظم شہباز شریف کی زیر سربراہی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت یہ مدت پوری کرے گی۔

اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ حکومت کی مدت 14 اگست 2023 کو ختم ہو گی تاہم وفاقی کابینہ کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا تھا کہ وزیراعظم نے یہ تاریخ یوم آزادی کے تناظر میں دی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ وزیراعظم نے بعد میں ہونے والی تقریبات میں واضح کیا تھا کہ آئینی مدت کی تکمیل پر وہ انتظام نگران حکومت کے سپرد کردیں گے۔

تاہم اس حوالے سے اب بھی کنفیوژن برقرار ہے کہ آیا 12 اگست کو آئینی مدت کی تکمیل پر اتحادی جماعتیں عام طریقے سے اسمبلیاں تحلیل کردیں گی یا صدر سے قبل از وقت تحلیل کی درخواست کریں گی۔

قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا عام انتخاب اس دن سے فوراً بعد 60دن کے اندر کردیا جائے گا جس دن اسمبلی کی میعاد ختم ہونے والی ہو بجز اس کے کہ اسمبلی سے پیشتر تحلیل نہ کردی جائے۔

تاہم اگر کوئی قومی یا صوبائی اسمبلی وقت سے پہلے توڑ دی جائے تو اسمبلی کا عام انتخاب اس کے توڑے جانے کے بعد 90 دن کی مدت کے اندر کرایا جائے گا۔

سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کا پہلا سیشن بھی 13 اگست 2013 کو ہوا تھا لہٰذا صوبائی اسمبلیوں کی مدت بھی قومی اسمبلی کے ساتھ اختتام پذیر ہو جائے گی۔

آج ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے نیئر بخاری نے کہا کہ آئینی مدت کی تکمیل سے محض چند دن قبل اسمبلیاں تحلیل کرنے سے کچھ اچھا پیغام نہیں جائے گا، قانون دانوں نے 13 اگست 2018 کو حلف اٹھایا تھا لہٰذا اس حساب سے پانچ سال جب پورے ہوں، اسی دن انتخابات ہوں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ملک میں عام انتخابات 12 اکتوبر کو ہونے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ مزید 30 دن کی مہلت لینے کے لیے اسمبلیاں تحلیل کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، الیکشن کمیشن سمیت سیاسی جماعتوں کے علم میں ہے کہ حکومت کی مدت کب ختم ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کمیشن مدت پوری ہونے کے 60 روز کے اندر انتخابات کروانے کے لیے تیار ہوتا ہے، اسمبلیاں تحلیل کرنے سے چند روز زیادہ مل جائیں گے جس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا اور پیغام بھی اچھا نہیں جائے گا۔

نیئر بخاری نے کہا کہ نگران حکومت کا فیصلہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر کریں گے، اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں کسی نام پر اتفاق نہ ہو سکا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی اور وزیر خارجہ بلال بھٹو زرداری کابینہ کا حصہ ہیں اور وزیراعظم نگران حکومت کے حوالے سے قیادت سے مشاورت کریں گے۔

نگران حکومت

فی الحال نگران وزیراعظم کے لیے کوئی امیدوار شارٹ لسٹ نہیں کیا گیا۔

نگران وزیراعظم کا انتخاب سبکدوش ہونے والا وزیراعظم، قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کرتا ہے۔

اگر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کسی شخص کو نگران وزیراعظم بنانے پر متفق نہیں ہوتے ہیں تو قومی اسمبلی کی تحلیل کے تین دن کے اندر وہ دو دو نامزد افراد کو اسپیکر کی طرف سے فوری طور پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی کے پاس بھیجیں گے۔

کمیٹی میں سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی، سینیٹ یا دونوں کے آٹھ ارکان شامل ہوں گے، جن کو حکومت اور اپوزیشن کی مساوی نمائندگی حاصل ہو گی، کمیٹی کے ارکان کی نامزدگی بالترتیب وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کرتے ہیں۔

اس طرح تشکیل دی گئی کمیٹی نگران وزیراعظم کے نام کو تین دن کے اندر حتمی شکل دے گی، اگر، کسی بھی صورت میں کمیٹی نگران وزیر اعظم کے لیے کسی نام کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہتی ہے تو معاملہ دو دن کے اندر حتمی فیصلے کے لیے الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے گا، اس سب کے دوران سبکدوش ہونے والا وزیراعظم نگران وزیراعظم کی تقرری تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔

نگران سیٹ اپ کے طویل عرصے تک رہنے کے حوالے سے اب بھی بہت ساری افواہیں گردش کر رہی ہیں، مبصرین کا خیال ہے کہ نگران سیٹ اپ کی تشکیل سے ابہام دور ہو جائے گا البتہ اگر ٹیکنو کریٹس کو لایا گیا تو معاملات مزید مشکوک ہو جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں