عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان کی معاشی شرح نمو پائیدار پالیسی اور اصلاحات پر عمل درآمد اور مناسب مالی تعاون سے بتدریج 5 فیصد پر واپس آنے کی توقع ہے۔

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی 120 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں ملک کی معاشی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پائیدار پالیسی اور اصلاحات پر عمل درآمد کے آغاز اور کثیرالجہتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے حاصل ہونے والے مناسب مالی تعاون سے شرح نمو میں اضافے کی توقع ہے جو وسط مدت میں 5 فیصد تک بتدریج واپس آنے کا امکان ہے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شرح نمو میں رواں مالی سال میں معمولی اضافہ ہوا اور 2.5 فیصد پر پہنچ جائے گی۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے بحالی کے بعد بیس ایفکٹ سے بہتری ہوگی اور خاص طور پر زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبے پر اثر پڑے گا، درآمدات پر عائد سختی میں نرمی سے معیشت میں خرابی اور مسلسل بیرونی چیلنجز میں وقت لگے گا اور درکار سخت میکرو پالیسیوں کی وجہ سے بحالی محدود ہوگی۔

مہنگائی کے حوالے سے آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ گزشتہ برس کے ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور غذائی اجناس سے تعاون ختم کرنے سے بیس ایفکیٹس کی وجہ سے جون سے بعد تک مجموعی مہنگائی بدستور کم ہونے کی توقع ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قیمتوں کا دباؤ بدستور بلند رکھا گیا ہے، جس میں مالی سختی کے مسائل بھی شامل ہیں لہٰذا اوسط مجموعی مہنگائی مالی سال 2024 میں بدستور 25 فیصد سے اوپر رہنے کا امکان ہے اور اختتام میں مالی سال 2024 کی چوتھی سہ ماہی میں مہنگائی کی شرح گر کر 20 فیصد سے کم رہنے کا امکان ہے۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ مہنگائی کی شرح مالی سال26-2025 کے وسط میں دوہرے ہندسے سے نیچے آئےگی۔

رپورٹ میں مالی حوالے سے کہا گیا ہے کہ مالی حالت بدترین انداز میں سکڑ گئی ہے اور کمزوریاں بدستور موجود ہیں۔

حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ آنے والے برسوں میں سماجی، ترقیاتی اور قرضوں میں توازن کے لیے پرائمری سرپلس مضبوط سرمایے کی کوششوں کے ساتھ برقرار رہنا چاہیے۔

نشان دہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کوششوں کے بغیر مالی اور قرض کی صورت حال بدستور بدتر رہے گی اور مائیکرو اکنامک استحکام کمزور رہے گی۔

عالمی ادارے نے کہا کہ برآمدات اور درآمدات کی بحالی کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں مالی سال میں 6.5 ارب ڈالر کے قریب بڑھ رہا ہے۔

تاہم کہا گیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ وسط مدت کے دوران معمولی اور جی ڈی پی کا 2 فیصد رہے گا جو متوقع سرمایے کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ بیرونی فناسنگ کی وجہ سے قرض کے حوالے سے توازن مزید پیچیدہ ہوچکا ہے اور بڑے پیمانے پر مالی ضروریات آنے والے برسوں میں بھی برقرار رہیں گی جس سے استحکام مزید خطرے میں ہوگا۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 12 جولائی کو پاکستان کے لیے 3 ارب ڈالر کے قرض کے معاہدے کی منظوری دی تھی اور بعد ازاں اس کے تحت ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط پاکستان کو جاری کردی گئی۔

پالیسی تجاویز

آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ملک کا مالی فریم ورک بہتر کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحات کا عمل جاری رکھنا ہوگا جس میں سرمایے کا انتظام، پبلک فنانسنگ منیجمنٹ میں اضافہ، اخراجات میں شفافیت میں مضبوطی اور قرض کی بہتری انتظامات میں بہتری قابل ذکر ہے۔

قرض دہندہ ادارے نے کہا کہ ملک کی شرح نمو کی صلاحیت، سماجی ترقی کی سطح اور غریب ترین افراد کے تحفظ کے لیے سماجی اخراجات مضبوط کیے جائیں۔

حکومت سے کہا گیا ہے کہ سرکار کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھنے اور جدت لانے کے لیے انتظامی کوششیں بروئے کار لانی چاہیے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں اضافہ نہ صرف بہترین شرح نمو کے لیے بنیاد ہے بلکہ اس سے متوسط طبقہ، نوجوان اور خواتین سمیت تمام پاکستانیوں کے لیے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

مزید کہا گیا ہے کہ سخت زری پالیسی مہنگائی کم کرنے، توقعات پوری کرنے اور ایکسچینج ریٹ کے ذریعے بیرونی شعبے میں توازن کے لیے اہم ہے۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ کا انتظام کرنے کے لیے ایڈمنسٹریٹیو کنٹرول مستقل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے اور ایکسچینج ریٹ کا تعین مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مالیاتی استحکام کے خطرات کی سخت نگرانی اور گورننس کے لیےکوششیں برقرار رکھنے اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مالیاتی شعبے کے تحفظ اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے اقدامات کا مؤثر نفاذ یقینی بنایا جائے۔

آئی ایم ایف نے کہا کہ توانائی کے شعبے کی بحالی کے لیے فوری اور ٹھوس اصلاآحت درکار ہیں۔

مجموعی طور پر ڈھانچہ جاتی پالیسیاں اور طویل عرصے سے ملکی ڈھانچے میں پائی جانے والی پیچیدگیوں کو حل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

  • گورننس، شفافیت مضٰبوط کرنے اور سرکاری ادارے مالی خطرات سے نکال کر صلاحیت بہتر کی جائے
  • کاروباری ماحول بہتر کیا جائے، روزگار اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے جائیں
  • انسداد بدعنوانی کے اداروں کو مؤثر بنایا جائے
  • ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ
  • کلیدی میکرو اکنامک ڈیٹا کی بروقت فراہمی

سنجیدہ رپورٹ

اٹلانٹک کونسل کے جنوبی ایشیا سینٹر میں پاکستان انیشیٹیو کے ڈائریکٹر ماہر معیشت عذیر یونس نے رپورٹ کا تجزیہ کیا کہ پاکستان کی معیشت کو اگلے دو سے تین سال تک مخصوص خطرات کا سامنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اگلے تین سال میں بیرونی مالیات کی ضرورت 80 ارب ڈالر رکھی گئی ہے اور نئی آنے والی حکومتوں کو یہ ہدف کو پورا کرنے کے لیے پالیسیاں جاری رکھنا ہوں گی۔

عذیر یونس کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر یہ پاکستان کی معاشی صورت حال پر ایک سنجیدہ رپورٹ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلے چند برس تک جو حکمران ہوگا ان کو محتاط ہونا پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں