لاہور: سول جج کی اہلیہ کے ’تشدد‘ کا شکار گھریلو ملازمہ کیلئے 48 گھنٹے اہم قرار

اپ ڈیٹ 31 جولائ 2023
بچی کا علاج کرنے والے سینئر ڈاکٹروں کے خصوصی بورڈ کو خدشہ ہے کہ اسے وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
بچی کا علاج کرنے والے سینئر ڈاکٹروں کے خصوصی بورڈ کو خدشہ ہے کہ اسے وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

مالکان کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والی کم عمر ملازمہ کو طبیعت بگڑنے پر لاہور جنرل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں منتقل کر دیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور جنرل ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو پروفیسر الفرید ظفر نے بچی رضوانہ کے لیے آئندہ 48 گھنٹے انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ بچی کا علاج کرنے والے سینئر ڈاکٹروں کے خصوصی بورڈ کو خدشہ ہے کہ اسے وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

انہوں نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ لڑکی کی والدہ کو شبہ تھا کہ رضوانہ کو اسلام آباد میں گھریلو تشدد کے دوران مالکان نے زہر دیا، اس لیے ڈاکٹروں نے بچی کے خون اور دیگر سیمپلز لیبارٹری بھیج دیے ہیں۔

رضوانہ کے والد ایک پیشہ ور مزدور ہیں، لڑکی کا تعلق سرگودھا سے ہے، اسے 24 جولائی کو تشویشناک حالت میں لاہور جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، اسلام آباد کے ایک سول جج کی اہلیہ نے بچی پر سونے کے زیورات چوری کرنے کا الزام لگا کر اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

پروفیسر الفرید ظفر نے بتایا کہ ڈیوٹی ڈاکٹروں نے انہیں بچی کی بگڑتی ہوئی حالت سے آگاہ کیا تو اسپیشل میڈیکل بورڈ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا۔

ڈاکٹرز کے مطابق زخم بہت پرانے ہیں جس کی وجہ سے رضوانہ کے خون میں انفیکشن پھیل گیا ہے، میڈیکل بورڈ کے کچھ ارکان نے میڈیا کو بتایا کہ لڑکی کے پھیپھڑوں میں انفیکشن ہے جس کی وجہ سے اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بدترین تشدد کی وجہ سے رضوانہ نفسیاتی مسائل سے گزر رہی تھی، اس کی ذہنی و جسمانی صحت کا جائزہ لینے کے بعد بورڈ کے اراکین نے اس کی صحت یابی کے بارے میں بے یقینی کا اظہار کیا۔

ایک سوال کے جواب میں پروفیسر الفرید ظفر اور میڈیکل بورڈ کے سربراہ پروفیسر جودت سلیم نے بتایا کہ رضوانہ کے ایک پھیپھڑے میں شدید انفیکشن ہے اور دوسرے میں خون کے لوتھڑے بن چکے ہیں اور ان کی سیچوریشن لیول مسلسل کم ہو رہی ہے۔

پروفیسر ظفر نے کہا کہ رضوانہ میں سیپسس کی تشخیص ہوئی ہے اور وہ کووڈ کی مشتبہ مریضہ تھیں اور ان کے نمونے کووڈ کی تشخیص کے لیے بھیجے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں