ہزارہ ایکسپریس سانحہ: ’حکام نے فالٹ کے باوجود ٹرین کو جانے کی اجازت دی‘

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے چیئرمین معین وٹو نے اوپر سے نیچے تک کے افسران کو سانحے کا ذمہ دار ٹھہرایا—فوٹو: اے ایف پی
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے چیئرمین معین وٹو نے اوپر سے نیچے تک کے افسران کو سانحے کا ذمہ دار ٹھہرایا—فوٹو: اے ایف پی

نواب شاہ کے قریب ٹرین حادثے میں دو درجن سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد وزارت ریلوے نے 6 اہلکاروں کو غفلت برتنے پر معطل کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اہلکار انجن میں خرابی پیدا ہونے کے بعد اسے تبدیل کرنے میں ناکام رہے اور انجن کے پہیوں پر گریس لگاکر اس کا عارضی حل کرتے ہوئے اسے روانہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے فلور پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا کہ انجن کے 12 میں سے 2 پہیے جام تھے لیکن حکام نے انجن کو تبدیل کرنے کے بجائے ’آسان حل‘ کا انتخاب کیا۔

ریلوے ذرائع نے بتایا کہ کوٹری اسٹیشن پر ہزارہ ایکسپریس کے انجن کے پہیوں میں خرابی کا پتا چل گیا تاہم مزید گریس لگانے کے بعد ٹرین کو آگے جانے دیا گیا۔

6 اگست کو نواب شاہ کے قریب ہزارہ ایکسپریس کی کم از کم 10 بوگیاں پٹری سے اتر گئیں جس کے نتیجے میں 30 مسافر جاں بحق جب کہ 40 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان ریلوے کی انتظامیہ نے نواب شاہ کے قریب ہزارہ ایکسپریس کے پٹری سے اترنے کے سلسلے میں اپنے 6 ملازمین کو معطل کر دیا تھا جن میں 18 گریڈ کے دو افسران بھی شامل ہیں۔

وزارت ریلوے کی طرف سے جاری کردہ نوٹی فکیشن میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان ریلوے کے معطل ہونے ولے 6 افسران و ملازمین میں گریڈ 18 کے 2 اور گریڈ 17 کا ایک افسر بھی شامل ہیں۔

مزید کہا گیا تھا کہ معطل ہونے والوں میں سکھر کے ڈویژنل ایگزیکٹو انجینئر حافظ بدرالعرفین، نواب شاہ کےاسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر مشرف مجید اور کوٹری کے پاور کنٹرولر بشیر احمد، کراچی ڈیزل ورکشاپ کے عاطف اشفاق، شہداد پور کے پرمیننٹ وے انسپکٹر محمد عارف اور گینگ مین کنگلے غلام محمد شامل ہیں۔

اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ریلوے اور ہوابازی خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ ہزارہ ایکسپریس حادثے میں ہلاکتیں ڈی ریل سے نہیں بلکہ ریل الٹنے کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں کیونکہ بوگیاں پل کی وجہ سے الٹ گئیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ اس حوالے سے گریڈ 18 سمیت 6 افسران کو معطل کیا گیا ہے، سندھ حکومت نے بہت تعاون کیا ہے، پاکستان رینجرز، آرمی نے بھی بہت کام کیا ہے اور سب سے زیادہ کردار سرہاری کے شہریوں نے ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 15 لاکھ فی شخص کا معاوضہ ادا کریں گے، لیکن پھر بھی کہوں گا کہ لکڑی کا کوئی پیچ نہیں لگا تھا، اگر ریلوے کو چلانا ہے تو اس پر سرمایہ کاری کریں، اگر روڈ اور ریلوے سیکٹر کو دیکھا جائے تو کوئی مماثلت نہیں ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ دنیا میں جہاں ریلوے کامیاب ہوتی ہے وہاں اس پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے، یہ حادثہ سیلاب زدہ علاقے میں پیش آیا ہے، ہم نے ٹریک کو ٹھیک تو کردیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس ہمیں دینے کے لیے ایک آنا نہیں تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر ابھی 12 ارب مل جائیں تو کام ہو سکتا ہے کیونکہ کوٹری اور روہڑی کے درمیان کا علاقہ ہمارے لیے سردرد بن گیا ہے، اب یہ آنے والی حکومت پر ہے کہ اس کو یہ رقم دینی چاہیے جس سے ٹریک کو مزید محفوظ کیا جا سکتا ہے، مزید کہا کہ ہم نے تخریب کاری کے خیال کو مسترد کردیا ہے، اصل وجہ سامنے پیش کردی ہے۔

انہوں نے لکڑی کے جوڑ یا فش پلیٹس کی جگہ کے حوالے سے تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ کہ لکڑی کے کچھ جوڑوں کے بغیر ٹرین کا پورا آپریشن کام نہیں کر سکتا، یہ جوڑ. کرنٹ کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، یہ جوڑ سگنلنگ سسٹم کو کنٹرول کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ لکڑی کے ٹکڑے ہالینڈ اور جرمنی سے درآمد کیے گئے ہیں اور انہیں حادثے کی وجہ سے جوڑنا سراسر جہالت ہے۔

احتساب کا فقدان

دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے چیئرمین معین وٹو نے اوپر سے نیچے تک کے افسران کو اس سانحے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی میں سکھر ڈویژن سے متعلق 2021 کی رپورٹ پر بحث ہوئی، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ مین ٹریک کو ری فربشمنٹ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کس طرح پی آر انتظامیہ نے رپورٹ کے تناظر میں کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ پی آر سکھر ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے اپنے اعلی افسران کے ساتھ کی گئی خط و کتابت کے بعد کچھ نہیں کیا گیا۔

حیدرآباد سے منتخب رکن قومی اسمبلی صابر قائم خانی نے کہا کہ اجلاس میں اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ یہ دعوے کہ معاملے کی انکوائری کی جائے گی، تقریباً دو سال گزر چکے، ہم نے اس طرح کی کسی انکوائری کے بارے میں کچھ نہیں سنا اور اب ہم سرہاری سانحہ سے دوچار ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں