ڈیرہ غازی خان: غازی یونیورسٹی میں طالبہ کے ریپ کیس میں 2 پروفیسرز گرفتار

اپ ڈیٹ 13 اگست 2023
طالبہ نے دونوں پروفیسرز کے خلاف ریپ کی تحریری شکایت درج کروائی تھی — فائل فوٹو: شٹراسٹاک
طالبہ نے دونوں پروفیسرز کے خلاف ریپ کی تحریری شکایت درج کروائی تھی — فائل فوٹو: شٹراسٹاک

ڈیرہ غازی خان میں پولیس نے غازی یونیورسٹی کے 2 پروفیسرز کو طالبہ کے ریپ کیس میں گرفتار کر لیا، جبکہ تونسہ پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے روکنے کے لیے دھمکیاں دینے پر متاثرہ لڑکی کے والد کی رپورٹ پر ملزمان کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کر لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ لڑکی کے والد نے صدر تھانہ تونسہ میں شکایت درج کروائی تھی کہ ریپ کیس کے ملزمان نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں اور ان سے اپنی بیٹی کو ایف آئی آر واپس لینے پر مجبور کرنے کا کہا ہے۔

شکایت کنندہ کے مطابق فزکس ڈپارٹمنٹ کے دونوں پروفیسرز نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریپ کا مقدمہ واپس نہ لیا گیا تو وہ اسے جان سے مار دیں گے، ان کی شکایت پر تونسہ صدر میں دفعہ 506-بی کے تحت مقدمہ نمبر درج کیا گیا کیونکہ لڑکی کا تعلق تونسہ سے ہے۔

دوسری جانب سنڈیکیٹ کمیٹی کی عدم موجودگی اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جنسی ہراسانی کی شکایات کی حساسیت کو مبینہ طور پر نظر انداز کرنے سے غازی یونیورسٹی کی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے۔

فزکس ڈپارٹمنٹ کی طالبات نے 4 فروری 2023 کو پاکستان سٹیزن پورٹل پر 2 پروفیسرز کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے خلاف شکایت درج کروائی تھی جنہیں بعد میں ریپ کیس میں مشتبہ ملزم قرار دیا گیا۔

اس کے ردعمل میں ڈاکٹر ندیم اختر کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی، کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر سعد اللہ لغاری نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر ندیم اختر نے انکوائری کیے بغیر ’سب ٹھیک ہے‘ کی رپورٹ تیار کی اور اس پر دستخط کرنے کو کہا، ڈاکٹر سعد اللہ لغاری نے رپورٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور وہ رپورٹ ان کے دستخط کے بغیر پورٹل پر جمع کرا دی گئی۔

بعد ازاں طالبہ نے دونوں پروفیسرز کے خلاف ریپ کی تحریری شکایت درج کروائی اور مقامی میڈیا کو اس کا علم ہوا، اس کے بعد یونیورسٹی حکام نے ڈاکٹر سعد اللہ لغاری کی سربراہی میں ایک اور 4 رکنی (بشمول خواتین فیکلٹی اراکین) کمیٹی تشکیل دی۔

ڈاکٹر سعد اللہ لغاری کے مطابق کمیٹی نے انکوائری کے نتائج پر دونوں پروفیسرز کو برطرف کرنے اور شواہد کے فرانزک آڈٹ کی تجویز دی۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے یونیورسٹی حکام نے اس معاملے پر آواز اٹھانے والے پروفیسرز ڈاکٹر ارشد اور ڈاکٹر راشد کو نشانہ بنانا شروع کر دیا جنہوں نے ریپ کیس کو خفیہ رکھنے سے انکار کر دیا تھا، حکام نے ان پر یونیورسٹی کو بدنام کرنے کا الزام عائد کیا۔

ڈاکٹر سعد اللہ لغاری کی کمیٹی کی رپورٹ اب سنڈیکیٹ کمیٹی کے فیصلے کی منتظر ہے جو گزشتہ ایک سال سے غیر فعال ہے۔

بعد ازاں اس معاملے پر آواز اٹھانے والے پروفیسرز کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف یونیورسٹی کے 19 پروفیسرز نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا، ڈاکٹر سعد اللہ لغاری بھی ان پروفیسزر میں شامل تھے جنہوں نے استعفے جمع کرائے تھے۔

سابق رجسٹرار ڈاکٹر اللہ بخش گلشن نے بتایا کہ انہیں بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ انہوں نے معاملے پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

مستعفی ہونے والے ایک اور پروفیسر نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان کے کمشنر کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے ان 19 پروفیسرز کے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جنہوں نے وی سی کے غیر قانونی انتظامی اقدامات کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا، لیکن وی سی نے کمشنر سے اتفاق نہیں کیا اور اُن پروفیسرز کو معطل کرنا اور دوسروں کو شوکاز نوٹس جاری کرنا شروع کر دیا۔

وائس چانسلر محمد کامران نے کہا کہ انہوں نے ریپ اور ہراساں کرنے کے کیس میں ملوث پروفیسرز کو سنڈیکیٹ کمیٹی کے فیصلے تک معطل کر دیا تھا لیکن بدقسمتی سے صوبائی حکومت میں تبدیلی کے بعد سے یہ کمیٹی کام نہیں کر سکی لہٰذا اب انہوں نے کمیٹی کی تنظیم نو کے لیے متعلقہ حکام سے رابطہ کیا ہے۔

دریں اثنا معطل پروفیسرز میں سے ایک ڈاکٹر ارشد نے اپنی ملازمت سے معطلی کے خلاف حکم امتناع حاصل کرنے کے لیے عدالت میں رٹ دائر کردی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں