اے ایس، اے لیول کے نتائج کا اعلان، توقعات کے برعکس گریڈز سے ہزاروں طلبہ مایوس

اپ ڈیٹ 13 اگست 2023
بہت سے طلبہ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے مطلوبہ معیار کے مطابق گریڈ حاصل کرنے میں ناکام رہے — فائل فوٹو: آن لائن
بہت سے طلبہ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے مطلوبہ معیار کے مطابق گریڈ حاصل کرنے میں ناکام رہے — فائل فوٹو: آن لائن

بین الاقوامی تعلیمی بورڈ کیمبرج انٹرنیشنل ایگزامنیشن (سی آئی ای) کی جانب سے 45 ہزار پاکستانی طلبہ کے اے ایس اور اے لیول کے نتائج کے اعلان نے بیشتر طلبہ کے لیے مایوسی پیدا کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعہ (11 اگست) کو جاری ہونے والے نتائج کے مطابق محض چند طلبہ ہی اے گریڈز اور بی گریڈز حاصل کر سکے جبکہ بیشتر طلبہ کے لیے سی، ڈی، ای اور یو گریڈز کی بوچھاڑ ہوگئی۔

اس کی وجہ مئی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی پہلی گرفتاری کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کی وجہ سے 3 روز امتحانات منسوخ ہونے کے بعد سی آئی ای کی جانب سے گریڈ پریڈکشن کے طریقہ کار کے تحت دیے جانے والے گریڈز ہیں۔

اس بنیاد پر جاری کیے جانے والے نتائج کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اندرون اور بیرون ملک بہت سے نامور اداروں میں عارضی داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد اب داخلے کے معیار پر پورا نہیں اتر پا رہی ہے۔

نتائج کے اعلان کے فوراً بعد بہت سے طلبہ سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے پائے گئے۔

کچھ طلبہ اپنے پرچوں کی دوبارہ جانچ کروانے کا سوچ رہے ہیں، کچھ دوبارہ امتحان دینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جبکہ کچھ طلبہ اپنے مضامین کو یکسر تبدیل کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔

کچھ طلبہ نے برٹش کونسل سے بھی رابطہ کیاجنہیں یہ بتایا گیا کہ کیمبرج انٹرنیشنل ایگزامنیشن (سی آئی ای) پرچوں کی جانچ کے لیے کورونا سے پہلے والا معیار بحال کر رہا ہے، اس کا مطلب جانچ کے معیار میں اضافہ اور غلطی کے مارجن میں کمی ہے جو طلبہ کو (کورونا وبا کے دوران) دی گئی تھی۔

مریم نواز کا اظہارِ تشویش

مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر ان نتائج پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’سیکڑوں طلبہ نے رواں برس سی آئی ای کی گریڈنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ رواں برس کی گریڈنگ غیر منصفانہ نتائج کا باعث بنی ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے‘۔

مریم نواز نے مزید لکھا کہ ’جن طلبہ کو اے گریڈز کی امید تھی انہیں سی گریڈز اور ای گریڈز ملے ہیں، ان طلبہ نے ناقابل یقین حد تک محنت کی ہے، ان کے یونیورسٹیوں میں داخلے اور مستقبل کے کیریئر سی آئی ای کے رزلٹس پر منحصر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک خوش آئند قدم ہو گا اگر سی آئی ای انصاف کی بنیاد پر رواں برس اپنے گریڈنگ سسٹم کا جائزہ لے، سی آئی ای کو اس حقیقت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ پاکستانی طلبہ غیر معمولی سیاسی ہنگامہ آرائی کے دوران امتحانات دے رہے تھے جب ان کی سلامتی اور تحفظ کو خطرہ لاحق تھا، ان تمام طلبہ کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جو ڈٹے رہے اور اس سب کے باوجود بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘۔

علاوہ ازیں سماجی کارکن جبران ناصر نے بھی اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے واٹس ایپ پر طلبہ کے پیغامات اور کالز کا سیلاب امڈ آیا ہے جو اپنے اے-لیول کے امتحانات کی گریڈنگ کے بارے میں شکایات کا اظہار کر رہے ہیں جو کہ بظاہر 9 مئی کو ہونے والی بدامنی کے سبب منسوخ کر دیے گئے تھے۔

انہوں نے لکھا کہ کچھ طلبہ کے پیغامات واقعی تکلیف دہ اور پریشان کن تھے، مجھے امید ہے کہ کیمبرج انٹرنیشنل اور برٹش کونسل اس معاملے کا نوٹس لیں گے۔

آئی بی اے نے ایڈمیشن پالیسی پر نظر ثانی کرلی

ایسے وقت میں جب بہت سے طلبہ یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے مطلوبہ معیار کے مطابق گریڈ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، یونیورسٹیوں کو بھی اپنی ایڈمیشن پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔

اس معاملے میں پہلا قدم انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی نے اٹھا لیا، آئی بی اے کے رجسٹرار ڈاکٹر اسد الیاس کے مطابق اس بار داخلے کے مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے والے طلبہ کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک بے ضابطگی ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہم اپنے 6 ڈگری پروگرامز میں داخلے کے لیے درکار لیول کو اوسط درجے پر لے آئے ہیں، جو داخلے کے معیار کو لچکدار بنادے گا، اس سے طلبہ کی خاطر خواہ تعداد کو مدد ملے گی۔

انہوں نے بتایا کہ ایسا ہم پہلی بار نہیں کر رہے ہیں، ہم نے اس سے پہلے کورونا کے دوران بھی کیا تھا جب طلبہ کے ’پریڈکٹڈ گریڈز‘ اچھے نہیں تھے، حتیٰ کہ کیمبرج انٹرنیشنل نے بھی اس وقت زیادہ تعاون کیا تھا لیکن بدقسمتی سے شاید کورونا ایک عالمی مسئلہ تھا اس لیے کیمبرج انٹرنیشنل نے اس وقت اسے مدنظر رکھا تھا، اس بار مسئلہ مقامی تھا حالانکہ ہمارے لیے یہ ایک ملکی سطح کا واقعہ تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیمبرج نے 3 منسوخ شدہ امتحانات کی گریڈنگ ’گریڈ پریڈکشن‘ کے طریقہ کار کے تحت کی، اس سے ہمارے طلبہ کا نقصان ہوا، برٹش سسٹم کو اس میں زیادہ لچک دکھانی چاہیے تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ خیال نہیں رکھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں