انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ریٹ میں نمایاں فرق، آئی ایم ایف سے مذاکرات میں حکومت کی پوزیشن کمزور

اپ ڈیٹ 29 اگست 2023
انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 302 روپے تک پہنچ چکا ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 302 روپے تک پہنچ چکا ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

ڈالر کے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان بڑھتے فرق نے حکومت کے لیے چیلنج کھڑا کر دیا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اس فرق کو 1.25 فیصد تک رکھے جو کہ 5.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 3 ارب ڈالر قرض معاہدے (جس پر گزشتہ ماہ دستخط کیے گئے) کی ایک اہم شرط کا تعلق مارکیٹ کے مطابق طے شدہ شرح تبادلہ سے ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے زیادہ مالیاتی نظم و ضبط، بیرونی دباؤ کو جذب کرنے کے لیے مارکیٹ کے ذریعے طے شدہ شرح تبادلہ اور اصلاحات پر مزید پیش رفت کے ذریعے اپنے موجودہ چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مستحکم پالیسی پر عمل درآمد ناگزیر ہے۔

آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد سے ڈالر نے تمام حدوں کو روند ڈالا ہے، انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 302 روپے تک پہنچ گیا جبکہ اوپن مارکیٹ میں 319 روپے کا ہوچکا ہے، یہ 5.6 فیصد کا فرق ظاہر کرتا ہے۔

آئی ایم ایف کے معاہدے کے بعد روپیہ مسلسل کمزور ہو رہا ہے، 6 ہفتوں میں روپے کی قدر میں 26.5 روپے کی کمی آچکی ہے، رواں ماہ کے آغاز میں نگران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے روپے کی قدر میں 13.51 روپے کمی آچکی ہے۔

انٹربینک مارکیٹ میں کرنسی ڈیلر عاطف احمد نے کہا کہ نومبر میں آئی ایم ایف کی جانب سے اسٹیند بائی ارینجمنٹ کا جائزہ متوقع ہے، ابھی 2 مہینے باقی ہیں لیکن اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اسٹیٹ بینک اِس فرق کو 1.25 فیصد تک لے آئے گا۔

اگرچہ ڈالر کے انٹربینک ریٹ کو آفیشل پرائس کے قریب سمجھا جاتا ہے، تاہم ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے اوپن مارکیٹ ریٹ حقیقت سے بہت دور ہیں۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے گزشتہ روز ڈالر کی قیمت 315 روپے بتائی، جو گزشتہ کاروباری روز 314 روپے تھی، یہ قیمت مارکیٹ میں بتائی گئی قیمتوں سے کم ہے، جو کہ 319 سے 321 روپے کے درمیان ہے۔

اوپن مارکیٹ تیزی سے گرے مارکیٹ کی جانب بڑھ رہی ہے، جس نے ترسیلات زر اور برآمدی آمدنی کی شکل میں لاکھوں ڈالر راغب کیے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر حکومت کے لیے آئی ایم ایف کو اس پر قائل کرنا ایک مشکل کام ہے کہ ملک قرض پروگرام کی اگلی قسط کا مستحق ہے، آئی ایم ایف پوری معیشت اور کلیدی میکرو انڈیکیٹرز میں کارکردگی کا جائزہ لے گا۔

آئی ایم ایف نے پہلے کہا تھا کہ نیا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معیشت کو بیرونی دھچکوں سے محفوظ رکھنے، میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے اور کثیر الجہتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے مالی اعانت کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرنے کے لیے حکام کی فوری کوششوں میں معاونت کرے گا۔

نیا اسٹیند بائی ارینجمنٹ ملک کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کے لیے بہتر مقامی محصولات کو متحرک کرنے اور محتاط اخراجات کے ذریعے سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش بھی پیدا کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں