بھارت: سپریم کورٹ میں مودی حکومت سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا روڈ میپ طلب

اپ ڈیٹ 29 اگست 2023
بھارتی سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے — فائل/فوٹو: رائٹرز
بھارتی سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے — فائل/فوٹو: رائٹرز

بھارتی سپریم کورٹ نے نریندر مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت سے پوچھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا کوئی ٹائم فریم یا پیش رفت کا کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کے چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد، جسٹس سجنے کشان کول، جسٹس سجنیو کھنہ، جسٹس بی آر گیوائی اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے بھارتی آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

بھارتی چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد نے سماعت کے دوران مودی حکومت سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق سوال کیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سماعت کے دوران چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چنداچد نے سولیسیٹر جنرل توشار مہتا سے سوال کیا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قومی سلامتی سےمتعلق امور ہیں، قوم کی حفاظت بذات خود بنیادی امر ہے لیکن آپ کو مجبور کیے بغیر کہ کیا کوئی ٹائم فریم زیر غور ہے، کیا کوئی روڈ میپ ہے؟ آپ اور اٹارنی جنرل اعلیٰ حکام سے ہدایات لے سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق توشار مہتا بھارتی حکومت اور مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ کی وکالت کر رہے ہیں۔

توشار مہتا نے دلائل میں حیثیت کی تنظیم نو کا حوالہ دیا اور بینچ کو آرٹیکل 370 میں تبدیلی کے بعد مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں سے آگاہ کیا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ جب یونین کی حد بندیوں کو دیکھتے ہیں تو ایک طرف مثال چندی گڑھ کی ہے جو پنجاب سے نکال لی گئی ہے اور بدستور یونین سرحد ہے، پھر مخصوص علاقوں میں پیش رفت ہوتی ہے اور یونین کی سرحد بن جاتی ہے، آپ فوری طور پر اس کو ریاستیں نہیں بنا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد نے حکومتی سے وکیل سے سوال کیا کہ اگر بھارتی پارلیمان قومی سلامتی کے پیش نظر مخصوص وقت کے لیے کسی ریاست کو یونین میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دے تو پھر کیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ قومی مفاد کے تحت کیا ہمیں پارلیمنٹ کو مخصوص وقت کے لیے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، ہم چاہتے ہیں یہ ایک مخصوص وقت کے لیے مذکورہ ریاست کو یونین بنانا چاہیے تاہم واضح مؤقف پر کہ اس کو واپس ریاست کی طرف لوٹنا ہوگا۔

بھارتی چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو بھی اس پیش رفت سے قبل ہمیں بیان دینا چاہیے کہ پیش رفت ہوگی، یہ مستقل طور پر یونین نہیں رہ سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق توشار مہتا نے 5 رکنی بینچ کو بتایا کہ اسی طرح کا بیان پارلیمان میں ایک وزیر نے دے دیا ہے۔

ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ میں بتایا کہ توشار مہتا نے کہا کہ یہ ثابت کرنے کے لیے مواد کافی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا آئین بھارت کے آئین سے مطابقت رکھتا ہے اور مقبوضہ کشمیر کی آئینی اسمبلی درحقیقت قانون ساز اسمبلی ہے جو قوانین بناتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 21 نومبر 2018 کو ریاستی قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا تھا لیکن کسی سیاسی جماعت، شہریوں یا رہنما کی جانب سے چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔

توشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ آج تک اسمبلی کی تحلیل پر کوئی چیلنج نہیں کر رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں ریاست کے آئینی ڈھانچے کی ناکامی پر گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا اور اس کے خلاف 14 ماہ کے بعد صرف ایک درخواست دائر کردی گئی تھی۔

انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کیا کہ دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد نے کہا کہ ہم آپ کی اس دلیل کو مان رہے ہیں کہ پیش رفت پہلے ہی شروع ہوچکی ہے اور وقفے کے بعد روڈ میپ کی وضاحت کردیں۔

یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔

آرٹیکل 370 کے باعث بھارت کی پارلیمنٹ کے پاس دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ ریاست میں قوانین نافذ کرنے کے محدود اختیارات تھے۔

بی جے پی کے اس فیصلے کو کشمیری عوام، عالمی تنظیموں اور ہندو قوم پرست حکمران جماعت کے ناقدین نے مسلم اکثریتی خطے کو ہندو آبادکاروں کے ذریعے شناخت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

بعد ازاں بھارتی سپریم کورٹ میں 20 سے زائد درخواستیں دائر کردی گئی تھیں، جس میں بھارتی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے کیے گئے فیصلے کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا تھا۔

درخواست گزار نے عدالت میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ آئینی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں