بجلی کے بھاری بلوں سے تنگ عوام کیلئے ’غیر روایتی حل‘ کی یقین دہانی

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2023
وزیراعظم نے پاور سیکٹر کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کی — فوٹو: اے پی پی
وزیراعظم نے پاور سیکٹر کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کی — فوٹو: اے پی پی

بجلی کے بھاری بلوں پر سراپا احتجاج عوام کو فوری ریلیف دینے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے ’ہنگامی اجلاس‘ طلب کرنے کے ایک ہفتے بعد نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے اس مسئلے کا غیر روایتی حل فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو ریلیف کے بلند و بالا دعوےکرنے کے بعد اپنے وعدوں سے اُس وقت پیچھے ہٹنا پڑا جب وہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو بجلی کے صارفین کے لیے سبسڈی فراہم کرنے پر راضی کرنے میں ناکام رہی۔

یہ اس حقیقت سے واضح ہے کہ ہفتہ بھر احتجاج اور شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کے باوجود نگران حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے پر پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاور اور فنانس ڈویژن نے مبینہ طور پر آئی ایم ایف کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی، جس میں گردشی قرضوں، کیش فلو اور آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) پر ریلیف اقدامات کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

اگرچہ ان مذاکرات کے حوالے سےکوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے ریلیف کے لیے اپنی تجویز میں تقریباً ساڑھے 6 ارب روپے کے اثرات کا تخمینہ لگایا لیکن آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ یہ تقریباً 15 ارب روپے ہوگا۔

تجویز میں حکومت پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ ریلیف کی فراہمی کا اثر ساڑھے 6 ارب روپے سے کم ہوگا، تاہم آئی ایم ایف نے تقریباً 15 ارب روپے کا تخمینہ لگایا اور اس منصوبے کو مسترد کر دیا اور مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کے لیے ایک نئے روڈ میپ کا مطالبہ کیا تاکہ نقصان کو پورا کیا جاسکے۔

گزشتہ روز وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران نگران وزیر اعظم نے کہا کہ صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ابھی بھی ’حقیقت پسندانہ‘ آپشنز تلاش کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ پاکستان کے وعدوں سے انحراف کیے بغیر بجلی کے بلوں کے معاملے پر عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ذمہ دارانہ فیصلے کرے گی۔

گردشی قرضوں، بجلی کی چوری اور ٹیکس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’قلیل مدتی حل‘ متعارف کرائے گی۔

قبل ازیں گزشتہ روز نگران وزیراعظم نے پاور سیکٹر کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کی جس میں انہوں نے حکام کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر بجلی چوری کرنے والوں اور واجبات کے نادہندگان کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا اور متعلقہ حکام کو اس حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت کی۔

معاشی بحالی

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ حکومتی اسٹرکچر کو نئے سرے سے ڈیزائن کیے بغیر نگران سیٹ اپ بنیادی طور پر معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کو از سر نو ترتیب دینے پر مرکوز ہے تاکہ معاشی بحالی کی بنیاد رکھی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) معاشی بحالی کی حکمت عملی ہے جس میں زراعت، معدنیات، دفاعی پیداوار اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

تاہم انہوں نے اپنی حکومت کے اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے کو بھی بیان کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ اقدامات میں بجلی کی 2 یا 2 سے زیادہ تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بجلی اور ٹیکس کے شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے، حکومت وسط مدتی اصلاحات کی بنیاد فراہم کرے گی، حکومت معاشی منصوبہ بندی کے لیے اسٹریٹجک راہ متعین کرنے کے لیے قابل عمل حکمت عملی تشکیل دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد حملوں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کے دوران وہاں پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے باقی رہ جانے والے ہتھیار علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غیر ملکی افواج اپنے مفادات کے حصول کے بعد افغانستان سے چلی گئیں تاہم ہم اپنے ملک، بچوں، مساجد اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے تیار ہیں۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاک فوج کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں اور دونوں بالخصوص معاشی بحالی کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام نے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سی پیک منصوبوں کا خیر مقدم کیا اور اب یہ منصوبہ دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔

بلوچستان میں چاندی اور سونے کے 6 ٹریلین ڈالر کے ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریکوڈک منصوبہ جلد شروع ہو گا، انہوں نے تمام متعلقہ فریقین پر زور دیا کہ معدنیات سے مالا مال علاقوں کی تلاش کے لیے ماڈل وضع کیا جائے۔

نگران وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ سے 25، 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 2 سے 5 سال میں پاکستان آئے گی۔

انتخابات میں حصہ لینے کیلئے بلا امتیاز مساوی مواقع

انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ نگران حکومت کے پاس آئینی ذمہ داریوں کی پاسداری کرتے ہوئے جلد از جلد عام انتخابات کے انعقاد میں سہولت فراہم کرنے کا مینڈیٹ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین میں مردم شماری کے بعد حلقہ بندیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے، تاہم نگران وزیراعظم نے اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات کے آئینی تقاضے کا ذکر نہیں کیا۔

ایک سوال کے جواب میں انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتوں کو بلاامتیاز عام انتخابات میں حصہ لینے کے مساوی مواقع میسر ہوں گے۔

’وائس آف امریکا‘ کے مطابق انتخابات میں پی ٹی آئی کے حصہ لینے سے متعلق سوال کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ سوال ہی کیوں اٹھایا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی یا نہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کو سیاسی سرگرمیوں سے روکا نہیں جارہا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعض معاملات میں سیاسی رویے تخریب کاری میں تبدیل ہو گئے اور ایسے طرزِ عمل سے نمٹنے کے لیے ملک کا قانون پہلے سے موجود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں