گلگت بلتستان کے حالات 2 روز میں معمول پر آجائیں گے، وزیراعلیٰ کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2023
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس تنازع کے حل کے ایک ہفتے بعد انٹرنیٹ سروس بحال کر دی جائے گی—فائل فوٹو: امتیاز علی تاج
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس تنازع کے حل کے ایک ہفتے بعد انٹرنیٹ سروس بحال کر دی جائے گی—فائل فوٹو: امتیاز علی تاج

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ حکومت نے پاکستان بھر کے علما کو اس متنازع مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مدعو کیا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ ایک ہفتے سے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلی ہوئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں وزیر قانون اور وزیر داخلہ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں حاجی گلبر خان نے دعویٰ کیا کہ خطے میں موجودہ غیر یقینی صورتحال 2 روز میں حل ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ آغا باقر الحسینی کی ایک متنازع تقریر کے بعد شروع ہوا، ان کی تقریر سے مشتعل ہو کر دیامر میں لوگوں نے شاہراہ قراقرم بلاک کر دی اور عالم دین کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، بعدازاں گلگت بلتستان کی پارلیمانی کمیٹی نے مسئلہ حل کرنے کے لیے دیامر میں مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کی۔

وزیر اعلیٰ کے بقول جب معاملہ تقریباً حل ہوچکا تھا اس وقت گلگت میں عالم دین قاضی نثار احمد کی ایک تقریر نے تناؤ کو پھر سے جنم دے دیا، یہ محض ایک فرقہ وارانہ مسئلہ ہے جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ گلگت بلتستان حکومت نے ملک بھر سے آنے والے مذہبی اسکالرز سے کہا ہے کہ وہ تنازع حل کرنے کے لیے مقامی مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ علمائے کرام دونوں فرقوں کے مقامی مذہبی رہنماؤں کی مشاورت سے اس مسئلے کو حل کریں گے، ہم اس حوالے سے پُرامید ہیں۔

ان علمائے کرام میں مولانا طیب پنج پیری، مولانا عبدالخبیر آزاد، علامہ ضیا اللہ شاہ بخاری، علامہ شبیر میسمی، ناصر عباس شیرازی، علامہ عارف حسین واحدی، علامہ حسین اکبر اور علامہ محمد اقبال بہستی شامل ہیں۔

انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس تنازع کے حل کے ایک ہفتے بعد خطے میں 4 جی انٹرنیٹ سروس بحال کر دی جائے گی۔

صوبائی وزیر داخلہ شمس لون نے کہا کہ حکومت نے سوشل میڈیا پر متنازع مواد اپ لوڈ کرنے پر 13 پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا جبکہ ویڈیو اپ لوڈ کرنے والے شخص کی گرفتاری کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

شمس لون نے کہا کہ گلگت بلتستان پولیس نے امن و امان کی خلاف ورزی پر مذہبی رہنماؤں کے خلاف 15 ایف آئی آر درج کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی رہنماؤں کی تقاریر کے بعد پھیلی غیر یقینی صورتحال نے خطے کو معاشی طور پر متاثر کیا ہے، خاص طور پر سیاحت کے شعبے سے منسلک طبقے، چھوٹے تاجر اور ٹرانسپورٹرز شدید متاثر ہوئے ہیں۔

وزیر داخلہ نے اس تنازع کو سی پیک اور دیا مر بھاشا ڈیم کے خلاف سازش کا حصہ قرار دیا، تاہم انہوں نے اس دعوے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

طلبہ کی امن ریلی

دریں اثنا گزشتہ روز علاقے میں طلبہ کی بڑی تعداد نے قیام امن کے لیے ریلی نکالی، اس مظاہرے کا مقصد گلگت بلتستان کے بارے میں کسی بھی غلط فہمی کو دور کرنا اور فرقہ وارانہ کشیدگی سے پاک، پرامن اور ہم آہنگی سے بھرپور علاقے کے طور پر اس کی حیثیت پر زور دینا تھا۔

شرکا مختلف سڑکوں سے ہوتے ہوئے سول سیکریٹریٹ میں چیف سیکریٹری ہاؤس پہنچے، انہوں نے کہا کہ انہیں امن کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر خطے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی تو ان کی تعلیم متاثر ہو گی۔

شرکا نے ایک قرارداد منظور کی کہ انہوں نے اس بھرپور ریلی کا اہتمام گلگت بلتستان میں امن و امان کو برقرار رکھنے اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال اور محبت کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے اپنی لگن ظاہر کرنے کے لیے کیا ہے۔

قرارداد میں طلبہ کی جانب سے اس پیغام پر زور دیا گیا کہ ’تعلیم سب سے بڑھ کر ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک پرامن ماحول کی ضرورت ہے، ہم گلگت بلتستان میں امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ہر سطح پر اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں‘۔

قرارداد کے مطابق شرکا نے غلط معلومات کو مسترد کیا اور اس بات کو اجاگر کیا کہ گلگت بلتستان فرقہ وارانہ کشیدگی اور تنازعات سے پاک خطہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں