برطانیہ میں گھر سے مردہ حالت میں برآمد پاکستانی نژاد بچی کے روپوش خاندان نے ویڈیو پیغام جاری کردیا

07 ستمبر 2023
ویڈیو میں سارہ کی سوتیلی ماں بچی کے والد عرفان شریف کے ساتھ دکھائی دیں—اسکرین شاٹ
ویڈیو میں سارہ کی سوتیلی ماں بچی کے والد عرفان شریف کے ساتھ دکھائی دیں—اسکرین شاٹ

برطانیہ میں گزشتہ ماہ اپنے گھر سے مردہ حالت میں برآمد ہونے والی 10 سالہ بچی سارہ شریف کی سوتیلی ماں بینش بتول نے گزشتہ روز ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جوکہ متوفی بچی کے گھر والوں کی جانب سے منظرعام پر آنے والا پہلا بیان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بظاہر اسمارٹ فون پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں سارہ کی سوتیلی ماں بچی کے والد عرفان شریف کے ساتھ دکھائی دیں۔

بینش بتول کا دعویٰ ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی برطانوی حکام کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان کا خاندان پاکستانی پولیس کے تشدد کے خوف سے روپوش ہے۔

ویڈیو میں صرف بینش بتول ہی بولتی دکھائی دیں جبکہ عرفان شریف خاموش بیٹھے نظر آئے، ایک نوٹ بک سے پڑھتے ہوئے انہوں نے سارہ کی موت کو ایک ’حادثۃ‘ قررا دیا اور الزام عائد کیا کہ پاکستان میں پولیس ان کے خاندان کے قریبی افراد کو ہراساں کر رہی ہے، انہیں غیر قانونی طور پر حراست میں لے رہی ہے اور ان کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے۔

سارہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے میں سارہ کے بارے میں بات کرنا چاہوں گی، سارہ کی موت ایک حادثہ تھی، پاکستان میں ہمارے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے وہ بری طرح متاثر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام میڈیا غلط بیانات دے رہا ہے اور جھوٹ بول رہا ہے، عمران (عرفان شریف کے بھائی) نے یہ بیان نہیں دیا کہ سارہ سیڑھیوں سے گر گئی اور اس کی گردن ٹوٹ گئی، یہ بات پاکستانی میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی، میں عمران کی حفاظت کے بارے میں بہت پریشان ہوں۔

انہوں نے دعوی کیا کہ ان کی فیملی کے پاس کھانا ختم ہو رہا ہے اور وہ گھر سے نکل نہیں سکتے، خاندان کے تمام افراد روپوش ہو گئے ہیں کیونکہ ہر کوئی اپنے تحفظ کے حوالے سے خوفزدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ گھر سے نکلنے سے ڈر رہے ہیں، کوئی بھی گھر سے باہر نہیں نکل رہا۔

ویڈیو میں انہوں نے مزید کہا کہ گھر میں کھانے پینے نے کا سامان ختم ہو گیا ہے اور بچوں کے لیے کوئی کھانا نہیں ہے کیونکہ تحفظ کے خوف سے ہم اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں۔

بینش بتول نے کہا کہ خاندان کے روپوش ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ڈر ہے کہ پاکستانی پولیس ان پر تشدد کر کے انہیں مار ڈالے گی۔

تاہم دوسری جانب جہلم پولیس کے سربراہ محمود باجوہ نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ مذکورہ خاندان کے افراد کو ہراساں کرنے اور تشدد کرنے کے الزامات غلط ہیں۔

گزشتہ ماہ عرفان شریف کے والد نے اپنے اہل خانہ کو ہراساں کیے جانے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں درخواست دائر کی تھی، عدالت نے انہیں دوبارہ حراست میں لینے سے پولیس کو روک دیا ہے تاہم پولیس افسران نے کہا کہ وہ ان سے پوچھ گچھ جاری رکھیں گے۔

قبل ازیں سارہ کی والدہ اولگا نے پولینڈ کے ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بچی اتنی بری طرح زخمی تھی کہ مردہ خانے میں وہ اسے پہچان بھی نہ سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ بچی کا ایک گال سوجا ہوا تھا اور دوسری طرف زخم تھا، اب بھی جب میں اپنی آنکھیں بند کرتی ہوں تو میں دیکھ سکتی ہوں کہ میری بچی کیسی دِکھ رہی تھا۔

قبل ازیں سارہ شریف کے دادا اور چچا نے دعویٰ کیا کہ اس کی موت ’حادثاتی‘ تھی، چند میڈیا گروپس کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ وہ سیڑھیوں سے گر گئی تھی اور اس کی گردن ٹوٹ گئی تھی۔

عرفان، ان کا بھائی فیصل ملک، بینش اور 5 بچے سارہ کی موت کے ایک روز بعد برطانیہ سے پاکستان کے لیے بذریعہ پرواز روانہ ہو گئے تھے، پولیس کا خیال ہے کہ سارہ کی لاش ملنے سے ایک روز قبل 9 اگست کو تینوں نے ملک چھوڑ دیا تھا۔

سرے پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے معائنے سے یہ بات سامنے آئی کہ سارہ کے جسم پر کئی گہرے زخم تھے جوکہ ممکنہ طور پر طویل عرصے سے موجود تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں