حکومت کے سخت اقدامات: اوپن اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کا فرق ایک فیصد سے بھی کم ہو گیا

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2023
فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق اوپن مارکیٹ روپے کے مقابلے میں ڈالر 5 روپے تنزلی کے بعد 307 روپے کا ہوگیا — فائل فوٹو: رائٹرز
فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق اوپن مارکیٹ روپے کے مقابلے میں ڈالر 5 روپے تنزلی کے بعد 307 روپے کا ہوگیا — فائل فوٹو: رائٹرز

حکومت کے سخت اقدامات کے سبب انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں بہتری کا سلسلہ جاری ہے، آج اوپن مارکیٹ میں ڈالر 5 روپے سستا ہو کر 307 روپے اور انٹربینک مارکیٹ میں 2 روپے 4 پیسے تنزلی کے بعد 304 روپے 94 پیسے کا ہو گیا۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق جمعرات کو روپے کی قدر 0.67 فیصد مستحکم ہوئی اور ڈالر مزید 2 روپے 4 پیسے سستا ہوگیا۔

کاروباری دن کے اختتام پر ڈالر 304 روپے 94 پیسے پر بند ہوا جبکہ گزشتہ روز ڈالر کی قیمت 306 روپے 98 پیسے تھی۔

حکومت کی جانب سے ڈالر کی اسمگلنگ اور دیگر غیرقانونی اقدامات کے سخت اقدامات کے اعلان کے نتیجے میں اوپن اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں فرق مزید کم ہو کر صرف 3 روپے رہ گیا، جو ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے، واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) معاہدے کے تحت اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مسلسل 5 دن تک انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں فرق 1.25 فیصد سے زیادہ نہ ہو۔

فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق اوپن مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 5 روپے تنزلی کے بعد 307 روپے کا ہوگیا، اسی طرح انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 2 روپے 48 پیسے سستا ہو کر 304 روپے 50 پیسے کی سطح پر آگیا، جو گزشتہ روز 306 روپے 98 پیسے پر بند ہوا تھا۔

گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا تھا کہ ایکسچینج کمپنیوں کے شعبے میں عوام کو بہتر خدمات فراہم کرنے، شفافیت اور مسابقتی ماحول کے لیے اسٹرکچرل اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا کہ مارکیٹ اوپر کی جانب اتار چڑھاؤ کی وجہ بنیادی طور پر قیاس آرائی پر مبنی سرگرمی دکھائی دیتی ہے، اور انٹربینک مارکیٹ بھی اسی کی پیروی کر رہی ہے۔

انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے اقدامات پر عمل درآمد اور اس ذمہ داروں کے خلاف کارروائیاں شروع کرنے کے بعد انٹربینک مارکیٹ پرسکون ہو گئی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ترسیلات زر بھی قانونی ذرائع سے آنا شروع ہو جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کارروائی جاری رکھتی ہے تو ڈالر کی طلب میں کمی ہوگی جس کے سبب اوپن مارکیٹ سے انٹربینک مارکیٹ میں رسد بہتر ہوگی اور آنے والے دنوں میں پاکستانی کرنسی مضبوط ہوگی۔

جے ایس گلوبل کے شعبہ تحقیق کی سربراہ امرین سورانی نے بتایا کہ ریگولیٹر کی جانب سے منی ایکسچینج سیکٹر کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات لانے کی حالیہ کوششوں نے ہمارے خیال میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں اضافہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے بتایا تھا کہ کریک ڈاؤن کے بعد غیر قانونی کرنسی ڈیلرز انڈر گراؤنڈ ہوگئے ہیں، جس کے سبب اوپن مارکیٹ میں استحکام دیکھا جا رہا ہے، حتیٰ کہ تجارت کے حجم میں بھی کمی ہوئی ہے۔

ملک بوستان نے ان رپورٹس کو مسترد کر دیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ایکسچینج کمپنیز میں تعینات اور آپریشنز کو مانیٹر کر رہے ہیں۔

تاہم مالیاتی شعبے کے اندرونی ذرائع نے اشارہ کیا ہے کہ حکام نے ایکسچینج کمپنیوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے، ملک بھر میں کرنسی کے غیر قانونی تاجروں کا مسلسل تعاقب کر رہے ہیں۔

پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی کے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے سربراہ سمیع اللہ طارق نے بتایا تھا کہ مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں تیزی سے گراوٹ شرح تبادلہ کے لیے اچھی ہے، اور اب فرق کم ہو کر 1.6 فیصد تک آ گیا ہے جس کے سبب آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے میں مدد ملے گی۔

ظفر پراچا نے گزشتہ روز بتایا تھا کہ خاص طور پر آرمی چیف نے اسمگلنگ کے خلاف جو مہم چلائی ہے، چاہے وہ اسمگلنگ، کرنسی، اشیا یا پھر ڈالر کی ہو، اس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں