سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے چیئرمین نیپرا، اراکین کو طلب کرلیا

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2023
سینیٹ کمیٹی کا اجلاس پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت ہوا—فائل فوٹو: اے پی پی
سینیٹ کمیٹی کا اجلاس پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت ہوا—فائل فوٹو: اے پی پی

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین اور اراکین کو گزشتہ روز (جمعرات کو) ہونے والے اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر پینل کے سامنے پیش ہونے کے لیے سمن جاری کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے بعد جاری ایک تحریری بیان میں کہا کہ کمیٹی نے چیئرمین نیپرا اور اس کے اراکین کی غیرحاضری پر برہمی کا اظہار کیا اور چیئرمین نیپرا اور اس کے تمام اراکین کو آئندہ اجلاس میں شرکت کے لیے سمن جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سینیٹرز نے نگران وزیر توانائی محمد علی اور سیکریٹری پاور ڈویژن راشد لنگڑیال کی عدم موجودگی پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

سینیٹ کمیٹی کا اجلاس پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو کی زیر صدارت ہوا، انہوں نے یہ حکم بھی دیا کہ کوٹ ادو پاور کمپنی (کاپکو) کے ساتھ جون 2021 میں بجلی کی خریداری کے معاہدے میں توسیع پر اس وقت کے وزیر بجلی اور سیکرٹری کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نیپرا ذرائع نے بتایا کہ سینیٹ کمیٹی یا اس کے سیکرٹریٹ نے چیئرمین نیپرا یا اس کے کسی بھی رکن کو مدعو ہی نہیں کیا تھا۔

نیپرا ایک نیم عدالتی ادارہ ہے جو پاور سیکٹر کے معاملات کو ترتیب دینے کے لیے پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا ہے، جس میں نجی سرمایہ کار، پبلک سیکٹر کمپنیاں اور بجلی کے صارفین شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمانی کمیٹیوں کی جانب سے جب بھی مدعو کیا گیا، چیئرمین نیپرا، کوئی رکن یا کوئی بھی اعلیٰ افسر نیپرا مؤقف پیش کرنے کے لیے ہمیشہ اجلاس میں شریک ہوا ہے۔

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ روز (جمعرات کو) سینیٹ پینل کے اجلاس کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹس میں 4 درجن سے زائد دفاتر اور افراد ’معلومات، ضروری کارروائی یا حاضری‘ کی فہرست میں شامل تھے لیکن اس نوٹس میں نیپرا یا اس کے دفتر کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔

ڈسکوز کے عہدیداران کے تبادلےکی تجویز

سینیٹ کمیٹی نے اپنے اجلاس میں مختلف تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) میں بجلی چوری اور لائن لاسز کے خلاف کارروائی کرنے پر پاور ڈویژن کی تعریف کی۔

پاور ڈویژن کے ایڈیشنل سیکرٹری ارشد مجید نے اجلاس کو بتایا کہ گزشتہ چند روز میں تقریباً ایک ارب روپے کی وصولی کی گئی ہے اور ڈویژن نے مختلف ڈسکوز کے افسران کے تبادلے بھی کیے ہیں تاکہ کام کو مؤثر انداز میں یقینی بنایا جا سکے۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے تجویز پیش کی کہ پاور ڈویژن کو مختلف ڈسکوز کے چیف ایگزیکٹوز، بورڈ آف ڈائریکٹرز اور متعلقہ حکام کو بھی تبدیل کرنا چاہیے جنہوں نے مبینہ طور پر برے ارادوں سے کام کیا اور پاور سیکٹر کی صلاحیت پر منفی اثر ڈالا۔

اجلاس میں داسو ہائیڈرو پاور اسٹیشن سے اسلام آباد تک 765 کلو واٹ ڈبل سرکٹ ٹرانسمیشن لائن سے متعلق کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔

کچھ سینیٹرز نے مشاہدہ کیا کہ کثیر جہتی قرض دینے والی ایجنسی اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے ذریعے ایک گٹھ جوڑ کام کر رہا ہے جس نے حصول کے عمل میں ہیرپھیری کی۔

ارشد مجید نے پینل کو بتایا کہ پاور ڈویژن نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور رپورٹ مکمل ہونے کے بعد پیش کی جائے گی۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کمیٹی نے واضح طور پر 765 کلو واٹ ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر کے لیے بولی کے عمل میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی لیکن پاور ڈویژن نے متعدد سفارشات کے باوجود متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کمیٹی کی تشکیل این ٹی ڈی سی کا استحقاق ہے اور پاور ڈویژن کی جانب سے عالمی بینک کو بولی کے عمل میں بدانتظامی کی نشاندہی کرنے کے لیے لکھا گیا خط کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔

سی پیک پاور پلانٹس کی تفصیلات پر بحث کرتے ہوئے پاور ڈویژن نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ 16 پاور پلانٹس (جن میں زیادہ تر ونڈ اور سولر پلانٹس ہیں) اربوں ڈالر کے منصوبے کا حصہ ہیں، اس کے علاوہ، ملک میں انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی تعداد 136 ہے۔

کمیٹی نے کیپکو کے حوالے سے حکومتی مؤقف کے بارے میں استفسار کیا جس کا پاور پرچیز ایگریمنٹ (پی پی اے) جون 2021 میں ختم ہو چکا ہے۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے پوچھا کہ کیپکو پاور پلانٹ کو کتنے برس میں گیس اور فرنس آئل فراہم کیا گیا تو پاور ڈویژن کوئی جواب دینے سے قاصر رہا۔

سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے تجویز دی کہ پاور ڈویژن کیپکو کے ساتھ خریداری کے معاہدے میں غیرقانونی توسیع کے الزامات کی تحقیقات کرے۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسی دوران پاور ڈویژن نے مظفر گڑھ اور جامشورو پاور پلانٹس کو بند کر دیا اور پاور ڈویژن کو مناسب گیس فراہم نہ کرنے پر تنقید کی، انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ پاور ڈویژن نے پبلک پاور پلانٹس بند کرنے کی کوشش کیوں کی۔

پاور ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ بجلی کی خریداری کے معاہدے میں توسیع اس لیے کی گئی کیونکہ یہ مفید پلانٹس میں سے ایک ہے جبکہ جامشورو اور مظفر گڑھ کے پلانٹس اس لیے بند کیے گئے کیونکہ ان کی کارکردگی کی کم ترین سطح پر تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں