اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ انسداد انتہا پسندی یونٹ نے مساجد یا مدارس میں کسی اجنبی شخص کو رات گزارنے یا ٹھہرنے کی اجازت نہ دینے سے متعلق تمام مدارس سے روابط مکمل کرلیے ہیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری کردہ بیان میں اسلام آباد پولیس نے کہا کہ ’مساجد میں رہائش کی اجازت نہیں ہے، اجنبی اشخاص کو مساجد یا مدارس میں رہائش یا شب گزاری کی اجازت نہیں دی جائے گی تاہم اسلام آباد پولیس نے ’اجنبی‘ کی مزید کوئی وضاحت نہیں کی‘۔

مدارس کھولنے سے متعلق پولیس نے کہا کہ اس معاملے پر پہلے ہی ہدایات جاری کی جا چکی ہیں، مدارس یا مذہبی تعلیمی ادارے کھولنے کے لیے مجاز اداروں کی اجازت درکار ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد پولیس اور ضلعی انتظامیہ قانون پر عمل درآمد کرنے والے علما اور منتظمین کا شکریہ ادا کرتی ہے۔

خیال رہے کہ یہ پیش رفت حالیہ مہینوں میں ملک میں بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر کے دوران ہوئی ہے جہاں گزشتہ برس نومبر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

گزشتہ ہفتے بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ایک خود کش بمبار نے 12 ربیع الاول کو عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر نکلنے والی ریلی میں خود کو اڑا دیا تھا جس کے نتیجے ایک مذہبی رہنما اور پولیس افسر سمیت ایک بچہ جاں بحق ہوگیا تھا۔

تاحال کسی بھی مسلح گروہ نے بم دھماکا کی ذمہ داری قبول نہیں کی جس نے حکومت کو یہ دعویٰ کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اس میں ملوث ہے۔

اسی دن خیبرپختونخوا کے علاقے ہنگو کی پولیس اسٹیشن کے قریب مسجد میں دو بم دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 5 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

اس کے اگلے دن آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ 12 ربیع الاول کی ریلی پر بم دھماکا کرنے والے اور اس کے سہولت کار پاکستان اور اس کے شہریوں کے دشمن کی پراکسیز ہیں۔

رواں ماہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے اعداد و شمار میں کہا گیا تھا کہ 9 برس میں ماہانہ طور پر رواں برس اگست میں مسلح حملوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔

ادھر پولیس نے ملک میں غیرقانونی باشندوں، جن میں زیادہ تعداد افغان باشندوں کی ہے، کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے جن کو پاکستان چھوڑنے کے لیے رواں ہفتے 31 اکتوبر تک کا وقت دیا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو یا تو قید کا سامنا کرنا ہوگا یا پھر اپنے اپنے ممالک بھیج دیا جائے گا۔

حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں منعقد ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔

کمیٹی میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ سرحد پار نقل و حرکت کے لیے یکم اکتوبر تک افغان شہریوں کے لیے ای تذکرہ یا الیکٹرونک تذکرہ ہے، یہ کمپیوٹرائزڈ ہو گا اور تحریری تذکرہ نہیں چلے گا جبکہ اس کے بعد نئی پاسپورٹ اور ویزا پالیسی لاگو ہوگی۔

حکومت کی طرف سے دی گئی تاریخ ختم ہونے کے بعد پناہ گزینوں کے غیرقانونی کاروبار اور جائیدادوں بشمول پاکستانی شہریوں کی معاونت سے چلنے والے کاروبار اور جائیدادوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا جائے گا۔

افغان طالبان کی طرف سے اس فیصلے کو ’ناقابل قبول‘ قرار دینے کے بعد وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ یہ آپریشن کسی مخصوص قومیت کے خلاف نہیں ہے۔

نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے بھی اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کے تحت‘ کیا گیا ہے۔

دریں اثنا اسلام آباد پولیس نے کہا تھا کہ تحویل میں لیے گئے ایک ہزار 126 غیر ملکی شہریوں میں سے 600 افراد کی طرف سے قانونی دستاویزات جمع کرانے کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دی گئی۔

پولیس نے کہا تھا کہ تاحال مختلف تھانوں میں 67 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں اور شہریوں سے کہا گیا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کو غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں