فلسطینیوں کے لیے عرب ممالک کی حمایت میں اضافہ

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2023
رام اللہ سے لے کر بیروت، دمشق، بغداد اور قاہرہ تک لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں—فوٹو: اے ایف پی
رام اللہ سے لے کر بیروت، دمشق، بغداد اور قاہرہ تک لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں—فوٹو: اے ایف پی
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی حمایت میں دعائیں کی گئیں—فوٹو: اے ایف پی
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی حمایت میں دعائیں کی گئیں—فوٹو: اے ایف پی

حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد عرب ممالک میں واقع مساجد، فٹ بال اسٹیڈیم اور شہروں میں فلسطینیوں کی حمایت میں جذبات میں اضافہ ہورہا ہے، جس سے فلسطینیوں کے لیے یکجہتی کی فضا پیدا ہورہی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق رام اللہ سے لے کر بیروت، دمشق، بغداد اور قاہرہ تک لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں، رقص کیا اور فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی حمایت میں دعائیں کیں۔

اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں رام اللہ سے ایک 52 سالہ کافی فروش فرح السعدی نے کہا کہ میں نے پوری زندگی میں اسرائیل کو ہمیں مارتے، ہماری زمینوں پر قبضہ کرتے اور ہمارے بچوں کو گرفتار کرتے دیکھا ہے۔

فرح السعدی کا بیٹا اسرائیل کی حراست میں ہے، انہوں نے کہا کہ میں حماس کے اقدام سے خوش ہوں تاہم مجھے انتقامی کارروائی میں غزہ میں اسرائیلی مظالم کی شدت کا خوف ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے کے ایک فلسطینی عہدیدار عصام ابوبکر نے کہا کہ جو کچھ ہوا، میرے خیال میں ایک بھی فلسطینی ایسا نہیں ہوگا جو اس کی حمایت نہ کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حماس کا حملہ اسرائیل کے جرائم کا فطری ردعمل ہے کیونکہ اسرائیل سیاسی مذاکراتی عمل سے منہ موڑ چکا ہے۔

فلسطینی خاموشی سے مرتے رہیں؟

ہفتے کے روز راکٹ حملے شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد فلسطین کے حامیوں نے جنوبی لبنان اور بیروت میں مٹھائیاں تقسیم کیں۔

اسرائیل اور لبنان تکنیکی طور پر تاحال حالتِ جنگ میں ہیں اور اسرائیلی فوجیوں نے ملک کے جنوب پر 22 سال سے قبضہ کر رکھا ہے۔

لبنان کے شہر سیڈون کے رہائشی چوک چراہوں پر جمع ہوئے اور پٹاخے جلائے، مساجد سے فلسطینی مزاحمتی جنگجوؤں کی تعریف میں نعرے بلند کیے گئے۔

بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں ایک ریلی نکالی گئی، جہاں 18 سالہ فلسطینی طالبہ ریم سوب نے کہا کہ ہم ہتھیار نہیں اٹھا سکتے لیکن کم از کم ہم ان کی حمایت تو کر سکتے ہیں۔

انسٹاگرام پر لبنانی کامیڈین شادن فکیح نے اِس بھرپور حمایت کی وضاحت کی جس کی مغربی ممالک میں وسیع پیمانے پر مذمت کی جارہی ہے۔

انہوں نے ایک ویڈیو میں کہا کہ آپ فلسطینیوں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ ہر روز مارے جائیں اور کچھ نہ کریں؟ خاموشی سے مرتے رہیں؟ وہ ہتھیار اٹھائیں گے اور لڑیں گے، یہ ان کا حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں حماس مخالف ہونے کے باوجود بھی اسرائیلی مظالم اور نسل پرستی کے خلاف مسلح مزاحمت کی حمایت کرتی ہوں۔

تیونس کے دارالحکومت میں اسکولوں میں فلسطینی پرچم لہرائے گئے، سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے اتحاد نے بڑے پیمانے پر اظہار یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالنے کی اپیل کی۔

ایوان صدر نے فلسطینی عوام اور ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت کے حق کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔

دمشق میں شہر کے اوپیرا ہاؤس پر فلسطینی پرچم جگمگا اٹھا۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں نیم فوجی دستوں نے تحریر اسکوائر پر ریلیوں کے دوران اسرائیلی پرچم کو روند ڈالا اور نذر آتش کیا۔

حتیٰ کہ خلیجی ریاستیں امریکا کی ثالثی میں ابراہم معاہدے کے باوجود فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی اس لہر کا حصہ بن گئیں، خیال رہے کہ اس معاہدے کے تحت 2020 میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر آگئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں