کرنسی کے غیر قانونی کاروبار کے خلاف کریک ڈاؤن ستمبر کے دوران ترسیلات زر کو نمایاں طور پر بہتر کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، جس کی ملک کے معاشی منیجرز اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان توقع کر رہا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک نے رپورٹ کیا کہ ستمبر میں ماہانہ بنیادوں پر ترسیلات زر 25 فیصد کی توقعات کے برعکس 5 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

تاہم، رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ترسیلات زر میں گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں 20 فیصد کمی ہوئی۔

مالیاتی شعبہ کرنسی کے غیر قانونی کاروبار اور اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کے مثبت نتیجے کے بارے میں پُرامید تھا جبکہ بینکرز رپورٹ کر رہے تھے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے زیادہ رقوم بھیجی جا رہی ہیں۔

تاہم، ستمبر میں ترسیلات زر 11 کروڑ 20 لاکھ ڈالر یا 5.3 فیصد اضافے کے بعد 2 ارب 20 کروڑ ڈالر رہیں، جو اگست میں 2 ارب 9 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں، کریک ڈاؤن ستمبر کے پہلے ہفتے میں شروع کیا گیا تھا۔

تجزیہ کار نے بتایا کہ کریک ڈاؤن سے ملک کا منظرنامہ تبدیل نہیں ہوا، سرمایہ کاروں اور ترسیلات زر بھیجنے والوں کو ملک میں اب بھی خطرہ لگتا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے ایک روز قبل رپورٹ کیا تھا کہ انہوں نے گزشتہ 4 ہفتوں کے دوران 90 کروڑ ڈالر بینکوں کو فروخت کیے، ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کو یقین ہے کہ یہ براہ راست کریک ڈاؤن کا اثر ہے۔

تجزیہ کار نے بتایا کہ ترسیلات زر کی مایوس کن آمد کے سبب آنے والے چند دنوں میں شرح تبادلہ کا رجحان تبدیل ہوسکتا ہے، مزید کہا کہ یہ واضح عندیہ ہے کہ روپے کی قدر زیادہ ہے۔

بینکرز نے بتایا کہ اب تک انٹربینک مارکیٹ میں نقدیت کے مسائل نہیں ہیں کیونکہ برآمدکنندگان کی جانب سے بڑی مقدار میں ڈالر فروخت کیے جا رہے ہیں۔

ایک سینئر بینکار نے کہا کہ اگر اکتوبر میں نہیں تو نومبر میں ڈالر کی قدر میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک 6 فیصد منافع کی پیش کش کررہے ہیں، جو کم ترسیلات زر کی اہم وجہ ہے، اگر پاکستانی بینک 21 فیصد کی پیش کش کرتے ہیں، تب بھی نفع منفی ہوگا کیونکہ مہنگائی 30 فیصد ہے۔

ستمبر میں گزشتہ برس کے اسی مہینے کے مقابلے میں ترسیلات زر میں 11.30 فیصد یا 28 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کم ہو گئیں۔

ترسیلات زر مالی سال 2024 کی پہلی سہ ماہی کے دوران 19.8 فیصد یا 1.6 ارب ڈالر کی بڑی تنزلی کے بعد 6 ارب 32 کروڑ ڈالر رہ گئی ہیں، جو اسی عرصے کے دوران 7 ارب 89 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھیں۔

مالی سال 2023 میں ترسیلات زر 4 ارب 20 کروڑ ڈالر سکڑ گئیں، جس پر حکومت کو سنگین تشویش ہونی چاہیے۔

مالی سال 2024 کی پہلی سہ ماہی کے دوران تقریباً تمام ممالک سے ترسیلات زر کی آمد میں تنزلی ہوئی، سب سے زیادہ کمی متحدہ عرب امارات سے 30 فیصد یا ایک ارب 2 کروڑ ڈالر کی ریکارڈ کی گئی۔

امریکا، برطانیہ اور سعودی عرب سے ترسیلات زر میں بالترتیب 11.6 فیصد (76 کروڑ 70 لاکھ ڈٓالر)، 13.2 فیصد (94 کروڑ 70 لاکھ ڈالر) اور 22 فیصد (ایک ارب 51 کروڑ ڈالر) کی کمی ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں