سائفر کیس: عمران خان کی درخواستِ ضمانت پر وفاق، ایف آئی اے کو نوٹس جاری

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2023
جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی
جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک 3 رکنی بینچ کا حصہ تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواستِ ضمانت قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے روسٹرم پر آکر ایف آئی آر پڑھ کر سنائی، جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ یہ معاملہ کب کا ہے؟

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ یہ معاملہ 2022 کا ہے، جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ سائفر کا مقدمہ درج ہونے میں پورا سال ہی لگا دیا ہے، کچھ دفعات میں سزا 2 سال ہے، کچھ میں سزائے موت اور عمر قید ہے۔

دورانِ سماعت ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کے بغیر نوٹس پیش ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا، جسٹس سرادر طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کس نے بلایا ہے، پیچھے جا کر بیٹھ جائیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ انکوائری میں کہا گیا تھا کہ شریک ملزمان کا کردار تفتیش میں طے کیا جائے گا، حتمی تفتیشی رپورٹ میں اعظم خان سے متعلق تفتیشی نے کیا کہا؟

سلمان صفدر نے جواب دیا کہ تفتیشی نے کوئی واضح مؤقف نہیں بتایا، اعظم خان اغوا ہوگئے، ان کی فیملی نے اغوا کا مقدمہ بھی درج کروایا، اغوا کے بعد اعظم خان کا 164 کا بیان آگیا، اس پر جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ایسے پھر سچ سامنے آتا ہے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ماتحت عدالت کے سامنے کئی گھنٹے دلائل دیے۔

اِس پر جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ آپ مقدمات کو سیاسی طور پر چلائیں گے تو یہی ہوگا، کس نے کہا تھا کہ اخراج مقدمہ اور ضمانت کو ایک ساتھ چلائیں، ملزم 60 سال سے کم نہیں ہے اور کیس مزید انکوائری کا ہے تو اس طرف آئیں۔

سائفر ایک سیکرٹ دستاویز تھا یا نہیں؟ جسٹس یحییٰ آفریدی

عدالت میں جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ کے کیس میں مرکزی گراؤنڈز کیا ہیں؟ سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ کیس بنتا ہی نہیں، جو دفعات لگائی گئیں وہ جاسوسی جیسے جرائم پر لگتی ہیں، تحقیقات میں کہیں نہیں بتایا گیا کہ کہاں جاسوسی ہوئی یا کسی دشمن ملک کو فائدہ پہنچا؟

جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے سائفر کا کوڈ کمپرومائز کردیا، کوڈ اگرچہ تبدیل ہوتا رہتا ہے کئی بار ہفتے بعد بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ جو الزام ہے اس پر سزا، جرمانہ یا 2 سال قید بنتی ہے، مگر دفعات بڑی لگا دی گئیں، سائفر کو ڈی کلاسیفائی قانون کے مطابق کیا گیا اور قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں سائفر پیش کرنے اور ڈی مارش کرنے کا ذکر سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے، عدم اعتماد کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس کا تذکرہ آیا۔

جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ابھی آپ نوٹس ہی جاری کروانا چاہتے ہیں تو اس کی حد تک دلائل دیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ سائفر ایک سیکرٹ دستاویز تھا یا نہیں؟ سلمان صفدر نے جواب دیا کہ سائفر ڈی کلاسیفائی ہونے کے بعد سیکرٹ دستاویز نہیں تھا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ڈی کلاسیفائی ہونے سے پہلے کیا سائفر کو ملزم نے دکھایا، سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اس دوران سائفر کسی کو نہیں دکھایا گیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ سائفر کو ہوا میں لہرا کر بتادیا جائے اس میں یہ لکھا ہے تو کیا وہ ابلاغ کے زمرے میں نہیں آتا؟

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ابھی ہم الزامات کا ٹرائل نہیں کر رہے، الزامات کیا ہیں صرف یہ دیکھ رہے ہیں۔

دریں اثنا عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستِ ضمانت قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے وفاق اور ایف آئی اے سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے اور کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

درخواست کا متن

واضح رہے کہ رواں ماہ 16 نومبر کو عمران خان نے سائفر کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اپنی درخواست ضمانت مسترد کیے جانے کے فیصلے کو اپنے وکیل سردار لطیف خان کھوسہ کے توسط سے چیلنج کیا تھا۔

اپیل میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست کو ان ریمارکس کے ساتھ مسترد کیا کہ ٹرائل کورٹ میں چالان جمع کرایا جا چکا ہے، اس لیے عمران خان ٹرائل کورٹ سے اپنی بریت کی درخواست کر سکتے ہیں، مزید کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم پہلے ہی جج کا تقرر، خصوصی عدالت کی حیثیت اور سائفر تحقیقات سے متعلق ایف آئی اے کی کارروائی کو چیلنج کر چکے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کو آرٹیکل 248 کے تحت دیے گئے ’استثنیٰ‘ اور اہم معاملات پر عوام کو اعتماد میں لینے کے ان کے آئینی حق کے پہلوؤں پر غور ہی نہیں کیا۔

درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر عمران خان کو ضمانت دے۔

کیس کا پسِ منظر

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گیا تھا۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں