اسرائیل اور حماس کا 4 روزہ جنگ بندی کا معاہدہ، یرغمالیوں، فلسطینی قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2023
جنگ بندی کے آغاز کے وقت کا اعلان اگلے 24 گھنٹوں میں کر دیا جائے گا — فوٹو: اے ایف پی
جنگ بندی کے آغاز کے وقت کا اعلان اگلے 24 گھنٹوں میں کر دیا جائے گا — فوٹو: اے ایف پی
یرغمالیوں کی رہائی کا آغاز جمعرات سے متوقع ہے — فوٹو: اے ایف پی
یرغمالیوں کی رہائی کا آغاز جمعرات سے متوقع ہے — فوٹو: اے ایف پی

اسرائیلی حکومت اور حماس کے درمیان 4 روزہ جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق ہوگیا ہے جس کے تحت اسرائیل میں قید 150 فلسطینیوں کے بدلے غزہ میں قید 50 یرغمالیوں کی رہائی اور محصور علاقے میں انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے گی۔

فریقین کے درمیان خفیہ مذاکرات میں قطر ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے، ایک بیان میں قطر نے اسے ’انسانی توقف‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی کے آغاز کے وقت کا اعلان آئندہ 24 گھنٹوں میں کر دیا جائے گا۔


4 روزہ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت:

  • 50 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔
  • 150 فلسطینی قیدیوں کو جیل سے رہا کیا جائے گا۔
  • 4 روز تک کوئی فوجی آپریشن نہیں ہوگا۔
  • اسرائیل مزید امداد غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے گا۔

ایک بیان میں قطر نے اس معاہدے کو انسانی بنیادوں پر ’جنگ میں وقفہ‘ قرار دیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 50 خواتین اور بچوں کو 4 روز میں رہا کیا جائے گا، اس دوران لڑائی میں وقفہ ہوگا۔

بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا ذکر کیے بغیر بیان میں کہا گیا کہ ہر 10 اضافی یرغمالیوں کو رہا کیے جانے پر جنگ بندی میں مزید ایک دن کا اضافہ کیا جائے گا۔

کئی گھنٹے طویل اجلاس میں غور و خوض کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کی حکومت تمام مغویوں کی وطن واپسی کے لیے پرعزم ہے، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں مجوزہ معاہدے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

حماس نے کہا کہ 50 یرغمالیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید 150 فلسطینی خواتین اور بچوں کے بدلے رہا کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا کہ جنگ بندی کے معاہدے سے انسانی و طبی امداد اور ایندھن سے لدے سیکڑوں ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی۔

حماس کے مطابق اسرائیل نے جنگ بندی کی مدت کے دوران غزہ کے تمام حصوں میں سے کسی پر بھی حملہ یا گرفتاری نہ کرنے کا عہد کیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں، آج کے اس معاہدے کے تحت مزید امریکی یرغمالیوں کو گھر واپس لایا جانا چاہیے، میں اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک ان سب کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔

7 اکتوبر سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تازہ جھڑپوں کے بعد یہ معاہدہ اس تنازع کی پہلی جنگ بندی ہے، ان جھڑپوں کے دوران اسرائیلی بمباری نے غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، 13 ہزار 300 شہری جاں بحق ہوچکے ہیں اور اس کی کُل 23 لاکھ آبادی میں سے تقریباً دو تہائی افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔

لیکن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل کے وسیع تر مشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، انہوں نے حکومتی اجلاس کے آغاز پر ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور ہم اس وقت تک جنگ جاری رکھیں گے جب تک ہم اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کر لیتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد حماس کو تباہ کرنا، یرغمال بنائے گئے ہمارے تمام افراد کی واپسی اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی گروہ یا ادارہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔

حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری نظریں نشانے پر ہیں، ہمارے جانباز جنگجو اپنے لوگوں کے دفاع اور جارحیت کو شکست دینے کے لیے ڈٹے رہیں گے۔

رہائی کا عمل جمعرات سے شروع ہونے کا امکان

ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ امید ہے کہ رہا کیے جانے والے یرغمالیوں میں 3 امریکی بھی شامل ہوں گے، ان میں ایک 3 سالہ بچی بھی ہے جس کے والدین 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے دوران مارے گئے تھے۔

اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے علاوہ نصف سے زیادہ یرغمالیوں کے پاس امریکا، تھائی لینڈ، برطانیہ، فرانس، ارجنٹائن، جرمنی، چلی، اسپین اور پرتگال سمیت تقریباً 40 ممالک کی شہریت یا دوہری شہریت ہے۔

اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کا آغاز جمعرات سے متوقع ہے، رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے 24 گھنٹوں کا انتطار کیا جائے گا تاکہ اسرائیلی شہریوں کو یہ موقع فراہم کیا جا سکے کہ وہ سپریم کورٹ سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی روکنے کی استدعا کر سکیں۔

رام اللہ میں فلسطینی قیدیوں کی تنظیم کے سربراہ قدورا فارس نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے قید کیے گئے 7 ہزار 800 سے زائد فلسطینیوں میں تقریباً 85 خواتین اور 350 نابالغ افراد شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے زیادہ تر کو کسی الزام کے بغیر یا اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ جیسے واقعات کے سبب حراست میں لیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں میں ایک اندازے کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ 240 عام شہریوں اور فوجیوں کو پکڑ کر یرغمال بنا لیا گیا تھا، خیال ہے کہ مغوی بنائے گئے یہ لوگ غزہ میں مقید ہیں۔

حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل نے غزہ پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر رکھے ہیں، فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک 14 ہزار 100 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔

غزہ کا بیشتر حصہ ہزاروں فضائی حملوں سے تباہ کردیا گیا ہے، یہ علاقہ مسلسل محاصرے میں ہے، جہاں محدود مقدار میں خوراک، پانی اور ایندھن کی اجازت ہے۔

حماس اور اسلامی جہاد کے ذرائع کے مطابق جنگ بندی کے اِس مجوزہ معاہدے کے تحت خوراک اور طبی امداد کے 300 ٹرک غزہ میں داخل ہونے کی بھی اجازت ہوگی۔

انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل شدید عالمی دباؤ میں ہے لیکن حالیہ چند روز میں اسرائیل نے شمالی غزہ میں جارحیت میں اضافہ کر دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں