اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں واضح کیا ہے کہ پاکستان سے افغان باشندوں کو زبردستی ملک بدر نہیں کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو افغانستان کے حوالے سے سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سفیر منیر اکرم نے زور دے کر کہا کہ پاکستان میں افغان شہریوں کے تحفظ کے ماحول کو ناموافق قرار دینا غلط اور جارحانہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے غیر قانونی، غیر ملکیوں پر قوانین نافذ کرنے کے حکومتی منصوبے کے اعلان کے بعد سے 5 لاکھ غیر دستاویزی افغان رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے 98 فیصد افراد کی واپسی رضاکارانہ تھی جبکہ باقی 2 فیصد دہشت گردی، منشیات کی اسمگلنگ یا دیگر جرائم میں ملوث افراد پر مشتمل تھی۔

پاکستانی سفیر منیر اکرم نے پاکستان میں تحفظ کے نامناسب ماحول کا دعویٰ کرنے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے تقریباً 50 لاکھ افغان مہاجرین کو چار دہائیوں تک پناہ دینے کی بات کو اجاگر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج بھی پاکستان میں 10 لاکھ سے زائد غیر دستاویزی افغان باشندے رہائش پذیر ہیں اور انہیں فوراً واپس جانا چاہیے، ہم نے افغان شناختی کارڈز، پی او آر کارڈز رکھنے والوں اور ان لوگوں کے لیے جنہیں وطن واپسی پر خطرے کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے کے لیے کئی مستثنیات بھی کی ہیں۔

اجلاس شروع ہوتے ہی افغانستان میں اقوام متحدہ کی ایلچی روزا اوتن بائیفا نے طالبان سے خواتین اور لڑکیوں پر سے پابندیاں ختم کرنے کے مطالبے کا اعادہ کیا اور ان پابندیوں کے برقرار رہنے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مزید بڑھنے کا انتباہ بھی دیا۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی لباس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزام میں افغان خواتین کی حالیہ گرفتاری کا دیگر خواتین پر گہرا اثر پڑ رہا ہے، جن میں سے اکثر اب عوام میں جانے سے ڈرتی ہیں۔

روزا اوتن بائیفا کا کہنا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور کام تک رسائی سے انکار اور عوامی زندگی کے بہت سے پہلوؤں سے انہیں ہٹائے جانے سے ذہنی اور جسمانی صحت اور معاش کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

انسانی امداد

پاکستانی سفیر منیر اکرم نے بین الاقوامی برادری کو یاد دلایا کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاکھوں بے سہارا افغان باشندوں کو غیر مشروط انسانی امداد فراہم کریں، انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان بینکنگ سسٹم اور تجارتی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں مدد کریں اور افغانستان کے منجمد اثاثے اس کے مرکزی بینک کو جاری کرنے کے لیے ضروری حالات پیدا کریں۔

پاکستان نے کاسا- 1000 بجلی کی ترسیل کے منصوبے سمیت افغانستان کے لیے انفراسٹرکچر اور علاقائی رابطوں کے منصوبوں پر عمل درآمد کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے افغان عبوری حکومت کو یاد دلایا کہ ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمسایہ اور دیگر ممالک کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو لاحق خطرات سے دور رہے اور افغانستان کی سرزمین سے ان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کو روکے، منیر اکرم نے کہا کہ ان اصولوں کی خلاف ورزی افغانستان کے فوری یا طویل مدتی مفاد میں نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے افغان عبوری حکومت کے ساتھ مستقل روابط کو ضروری سمجھتا ہے۔

پاکستان نے سلامتی کونسل سے افغان حکومت پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملے رکوانے کےلیے دباؤ ڈالنے کا مطالبہ بھی کیا، پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے مالیاتی ذرائع کی نشاندہی کی جائے اور اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ کالعدم جماعت نے جدید فوجی سامان کیسے حاصل کیا؟ ساتھ ہی منیر اکرم نے افغان حکومت پر کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق ختم کرنے پر زور دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں