اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی اجازت کے خلاف اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

’ڈان نیوز‘ کے مطابق عمران خان کی قانونی ٹیم اور اتحادیوں سے ملاقات کے لیے سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف چیف کمشنر اسلام آباد اور سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اپیل پر سماعت کی، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد، اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمٰن و دیگر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے نیاز اللّٰہ نیازی، شعیب شاہین و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف کمشنر اسلام آباد کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ عدالت کے سامنے چیلنج کر رکھا ہے، انہوں نے سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کسی سے ملاقات میں کیا مسئلہ ہے؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ پریزن رولز 1998 کے تحت ملاقاتوں کے حوالے سے واضح ہیں۔

پی ٹی آئی وکیل نیاز اللّٰہ نیازی نے کہا کہ سنگل رکنی بینچ نے 3 مختلف درخواستوں پر فیصلہ دیا ہے، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے نیاز اللّٰہ نیازی کو معزز جج صاحبہ کا نام لینے سے روک دیا۔

سرکاری وکیل نے دلائل دیے کہ سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ پریزن رولز کی خلاف ورزی ہے، پریزن رولز کے مطابق ملاقاتیں جیل مینوئل کی مطابق ہوتیں ہیں، جیل ملاقاتوں کے لئے رولز کے تحت مختلف اوقات کار مقرر کیے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ رولز کے مطابق ملاقاتیں جیل نمائندہ کی نگرانی میں ہوگی، قانونی ٹیم کی ملاقات ہو یا کسی اور کی، اکیلے میں ملاقات کی اجازت نہیں، کسی بھی مجرم سے ملاقات جیل مینوئل کی مطابق ہوتیں ہیں۔

’جن کو یہاں سے اجازت ملتی ہے اُن کو بھی نہیں ملنے دیا جارہا‘

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کو سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے کس حصے سے اعتراض ہے؟

سرکاری وکیل نے کہا کہ سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ ہی جیل مینوئل اور پریزن رولز کے خلاف ہیں، عدالت نے کہا کہ اگر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو جرمانہ عائد کریں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو جرمانہ سے مسئلہ ہے؟ یہاں عمران احمد خان نیازی سے ملاقاتوں کی روزانہ کتنے درخواستیں آتی ہیں؟ ہم اس معاملے کو روٹین نہیں بنارہے، مگر جن کو یہاں سے اجازت ملتی ہے ان کو بھی نہیں ملنے دیا جارہا ہے۔

پی ٹی آئی رہنما شوکت بسرا کے روسٹرم پر بنا گاؤن کے کھڑے ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے شوکت بسرا سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ اس کیس میں نہیں ہیں، نہ ہی آپ ڈریسں میں ہیں، آپ بیٹھ جائیں۔

شوکت بسرا نے کہا کہ میں کورٹ ڈریس میں ہوں میں ہائی کورٹ کا وکیل ہوں، باہر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کھڑے ہیں ان کو نہیں آنے دیا جارہا، اِس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کھڑے ہیں تو کھڑا رہنے دیں، آپ بیٹھ جائیں۔

چیف جسٹس نے استسفار کیا کہ عدالت نے تو 6 افراد کی ملاقاتوں کا حکم دیا ہے، سرکاری وکیل نے کہا کہ عدالت کے پاس جیل اتھارٹی کے پاس آرڈر پاس کرنے کا اختیار نہیں، جیل کا معاملہ صوبائی معاملہ ہے، اس عدالت کا دائر اختیار نہیں۔

’رولز پڑھ لیجئے اور ہمیں بتائیں کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ہم آپ کی بات مان لیں تو اسلام آباد کا کیا ہوگا؟ اڈیالہ جیل صرف پنجاب کا نہیں بلکہ اسلام آباد کا بھی جیل ہے، اسلام آباد کے قیدی اڈیالہ جیل ہی ہوتے ہیں، آپ رولز پڑھ لیجئے اور ہمیں بتائیں کہ آپ کا مسئلہ کیا ہے؟

سرکاری وکیل نے کہا کہ سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ آرٹیکل 199 تجاوز ہے، وفاقی عدالت کا دائرہ اختیار تب ہوگا جہاں ٹرائل ہوا ہوں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کی بات مان لیں تو پھر اسلام آباد کے ہمارے انڈر ٹرائل یا سزایافتہ قیدیوں کے حوالے سے فیصلہ کا اختیار نہیں ہوگا، آپ اس کیس کو کہیں اور لے کر نہ جائیں، میاں نواز شریف کیس کی اپیلیں یہاں زیر سماعت رہی ہیں، سرکاری وکیل نے کہا کہ اپیل میں عدالت بالکل جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ آپ کوئی اور نقطہ اٹھائیں اور دلائل دیں، آپ کی بات اگر مان لیں تو اس کا مطلب کہ سزا ہونے کے بعد ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ صرف سزا یافتہ ہی نہیں وہاں تو انڈر ٹرائل قیدی بھی ہیں پھر تو وہاں بھی ہمارا لینا دینا نہیں ہوگا، آپ اگر میرٹ پر نہیں آتے آپ کی مرضی مگر اس نقطے کو آپ کہیں اور لے کر جارہے ہیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ جیل راولپنڈی میں واقع ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام آباد کا دائرہ اختیار نہیں، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹوری کا اڈیالہ جیل میں دائرہ اختیار ہے، آپ نے جتنے دلائل دئیے ہم نے سن لیے۔

ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ جیل سے متعلق حکومت پنجاب کی ویب سائٹ پر 265 کے رولز مختلف ہیں، رولز کے مطابق ایک ملاقات ایک ہفتے میں ہوسکتی ہے، جیل رولز میں سیاسی لوگوں کی ملاقاتوں کی اجازت نہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ یعنی کہ اسلام آباد اور پنجاب کے جیل رولز مختلف ہیں؟ ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ رولز کونسے نئی ہے اور کونسی پرانی؟

ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہر قیدی کو 14 دنوں میں خاندان اور دوستوں سے ایک بار ملاقات، انٹرویو کی اجازت ہے۔

’جج نے روزانہ بھی ملاقات کا کہا تو کروادیں، وکیل سے ڈسکشن سے تو نہ روکیں‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ جیل سپرٹنڈنٹ آل اینڈ آل ہیں؟ وکیل نے کہا کہ ہم نے اس وقت ہفتے میں 3 ملاقاتوں کی اجازت دی ہوئی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جج صاحب نے اگر روزانہ بھی ملاقات کا کہا ہے تو آپ کروادیں، کم از کم کسی کو وکیل سے ڈسکشن سے تو نہ روکیں۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ وکلا آتے ہیں، ایک وکالت نامہ ہے، اوپر 8، 8، 10، 10 وکلا کے نام ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کسی کو روک نہیں سکتے کہ وہ کتنے وکلا کرتے ہیں، آپ کے پاس اختیارات ہیں مگر قانون قاعدہ میں رہ کر، کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو، جج صاحب نے قانون و قاعدہ کو وضع کیا ہے جو آپ کا کام ہے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ اِن چیزوں کو آپ خود دیکھ لیں، ہمارے پاس اگر ایسے درخواستیں آنا شروع ہوگئیں تو ہمارے لیے مسئلہ ہوگا، وہ ایک بڑے سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں، ان سے وکلاء اور قیادت کی ملاقات تو ہوگی، جج صاحب نے کوئی قانون نہیں توڑا، نہ ہی کوئی غلط ڈائرکشن دی ہے، اختیارات آپ کے پاس ہیں مگر قانون قاعدے کو نہیں توڑا جانا چاہیے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ اگر فیصلے میں غلط رولز ہیں تو آپ نظر ثانی اپیل دائر کردے، آپ کے مطابق اس ججمنٹ میں رولز وائلیٹ کردئیے گئے ہیں مگر فیصلے میں ایسا کچھ بھی نہیں، نہ آپ کوئی رولز بریک کرسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی عدالت بریک کرسکتی ہے۔

اس موقع پر نیاز اللّٰہ نیازی نے کہا کہ اِن کا دائرہ اختیار ہے، 5 جگہوں پر چیکنگ کرتے ہیں مگر ہم نے کبھی کچھ نہیں کہا۔

کمرہ عدالت میں موجود شیر افضل مروت نے کہا کہ 8 مہینوں سے انہوں نے الگ طریقہ اپنایا ہے، ہم کوئی دستاویز نہیں لے کر جاسکتے، جب خان صاحب سے ملاقات ہوتی ہے تو ایک ڈپٹی سپرٹنڈنٹ خان صاحب کے پاس ایک ہمارے پاس ہوتا ہے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے تو دستاویزات لے جانے کی اجازت دی ہے، شیر افضل مروت نے جواب دیا کہ ہم عدالتی فیصلے کے بعد بھی کچھ نہیں لے کر جاسکتے۔

دریں اثنا عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

واضح رہے کہ 26 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو اپنے وکلا سے تنہائی میں ملاقات کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

4 مارچ کو ہونی والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود عمران خان سے وکلا کی ملاقات نہ کرانے پر جیل انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر فریقین سے ایک ہفتے میں جواب طلب کرلیا تھا۔

8 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکلا کی جانب سے عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ دینے پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف توہین عدالت کیس پر سماعت ہوئی تھی، دوران سماعت جیل سپرنٹنڈنٹ اسد وڑائچ نے اپنا جواب جمع کرواتے ہوئے بتایا تھا کہ وکلا کو کبھی بھی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔

تاہم گزشتہ روز (12 مارچ کو) راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کو دہشتگردوں کی جانب سے نشانہ بنائے جانے کے خدشے پر عمران خان سمیت تمام قیدیوں سے ملاقاتوں پر 2 ہفتے کے لیے پابندی عائد کردی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں