ایک تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس صدی کے آخر تک دنیا کے تقریباً ہر ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد اتنی کم ہو جائے گی کہ ممالک کے لیے اپنی آبادی کا تناسب برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق لانسیٹ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سنہ 2100 تک 204 میں سے 198 ممالک کی آبادی سکڑ جائے گی، اس کے علاوہ زیادہ تر بچوں کی پیدائشیں غریب ممالک میں ہوں گی۔

واشنگٹن یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوایشن کی طرف سے کی گئی تحقیق کے مطابق سنہ 2100 میں ہر دو میں سے ایک بچہ افریقی صحرائی ممالک میں پیدا ہو گا، تاہم صرف صومالیہ، ٹونگا، نائجر، چاڈ، ساموا ، اور تاجکستان اپنی آبادی کو کنٹرول رکھ سکیں گے۔

تحقیق کے شریک مصنف نتالیہ وی بھٹاچارجی نے کہا کہ ’ شرح پیدائش میں یہ متوقع رجحان عالمی معیشت اور ین الاقوامی طاقت کے توازن کو یکسر تبدیل کردیں گے اور معاشروں کی از سر نو تشکیل کریں گے۔

امیر ممالک کو شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے معاشی ترقی کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، جب کہ غریب ممالک اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو سہارا دینے کے لیے بڑے چیلنج سے نمٹیں گے۔

شریک سربراہ مصنف اور اسسٹنٹ پروفیسر آسٹن ای شوماکر کے مطابق افریقی صحرائی ممالک، جن میں شرح پیدائش زیادہ ہے، کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے، ان ممالک کو بڑھتی آبادی کے مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے ، ورنہ انہیں سنگین انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شرح پیدائش میں بڑی تبدیلی کی اس بات ضرورت پر زور دیتی ہے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے، ہیلتھ کیئر انفرا اسٹرکچر میں بہتری اور شرح اموات میں کمی کو روکنے کے حوالے سے مسائل کو اجاگر کیا جائے۔

آسٹن ای شوماکر نے یہ بھی بتایا کہ غربت کے خاتمے اور خواتین کے تولیدی حقوق، خاندانی منصوبہ بندی اور لڑکیوں کی تعلیم کو ہر حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔

اس تحقیق میں کت نتائج میں سروے، مردم شماری کے اعداد و شمار اور 1950 سے 2021 تک جمع کی گئی معلومات شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں